You are reading a tafsir for the group of verses 6:126 to 6:127
وَهٰذَا
صِرَاطُ
رَبِّكَ
مُسْتَقِیْمًا ؕ
قَدْ
فَصَّلْنَا
الْاٰیٰتِ
لِقَوْمٍ
یَّذَّكَّرُوْنَ
۟
لَهُمْ
دَارُ
السَّلٰمِ
عِنْدَ
رَبِّهِمْ
وَهُوَ
وَلِیُّهُمْ
بِمَا
كَانُوْا
یَعْمَلُوْنَ
۟
3

(آیت) ” نمبر 126۔ 127۔

یہ ہے صحیح راستہ اور تیرے رب کا راستہ ” تیرے رب “ کا لفظ نہایت ہی اطمینان بخش اور تفشی بخش ہے ۔ دل مومن کو اعتماد اور یقین سے بھر دینے والا ہے اور ایک اچھے انجام کے لئے خوشخبری ہے ۔ یعنی یہ ہے ہدایت وضلالت کے بارے میں سنت الہیہ اور یہ ہے اسلام کا قانون حلال و حرام اور یہ دونوں دین اسلام کا حصہ ہیں اور سیاق قرآن میں اسی لئے انہیں یکجا اور ایک ٹکڑا بنایا گیا ہے ۔

ہم نے تو ان آیات الہیہ کو نہایت ہی واضح کرکے بیان کردیا ہے لیکن ان سے استفادہ وہی لوگ کرسکیں گے جو ان کو بھلائیں گے نہیں بلکہ یاد رکھیں گے ۔ اس لئے کہ دل مومن تو یاد کرنے والا ہے ‘ بھولنے والا نہیں ہے ۔ نیز دل مومن ہمیشہ ہدایت کے لئے کھلا رہتا ہے ۔ وہ زندہ ہوتا ہے اور بات سنتا ہے ‘ مردوں کی طرح نہیں ہوتا ۔

پھر جو لوگ یاد کرتے ہیں اور نصیحت پکڑتے ہیں ان کے لئے ان کے رب کے نزدیک دارالسلام ہے جہاں وہ تسلی اور تشفی سے رہیں گے ۔ اس امن و طمانیت کی ضمانت اللہ دیتا ہے جو کسی کے عمل کو ضائع نہیں کرتا ۔ وہ ان کا ولی اور مددگار ہے اس لئے کہ وہ صحیح راستے پر عمل کرتے ہیں اور آزمائش دنیا میں ان کی کامیابی پر یہ ان کے لئے انعام ہے ۔

یہاں آکر ہم ایک بار پھر اپنے آپ کو ایک عظیم حقیقت کے سامنے کھڑا پاتے ہیں ۔ اس حقیقت کا تعلق اس دین کے نظریاتی پہلو سے ہے اور یہ حقیقت اسلام کے ان نظریات اور اللہ کے حق حاکمیت پر مشتمل ہے جن کے اوپر اللہ کا سیدھا راستہ استوار ہوتا ہے ۔ یہ اس دین کا حقیقی مزاج ہے اور اسی پر اسے اللہ رب العالمین نے استوار کیا ہے ۔

درس 69 ایک نظر میں :

یہ پورا مضمون درس سابق ہی کے ساتھ ملحق ہے ‘ بلکہ یہ اسی کا تسلسل ہے ۔ اور یہ اسی طرح ہے جس طرح سمندر میں لہر کے بعد لہر اٹھتی ہے ۔ اس میں شیاطین جن اور شیاطین انس کے انجام کا بیان کیا گیا ہے اور یہ انجام اس اچھے انجام کے بالمقابل بیان ہوا ہے جو ان لوگوں کا ہوگا جو صراط مستقیم پر قائم ہوں گے ۔ اس جگہ اس کا ذکر اس مناسبت سے ہوا ہے کہ یہاں اللہ کی حاکمیت اور اس کے حق قانون سازی کا مضمون چل رہا تھا اور یہ مسائل وہ ہیں جن کا تعلق دین اسلام کے بنیادی اور ایمانی تصورات کے ساتھ ہے ، مقصد یہ بتلانا ہے کہ یہ مسائل محض سیانی اور دنیاوی مسائل نہیں ہیں بلکہ یہ ایمانیات کے ساتھ متعلق ہیں اور ان پر اخروی جزاوسزا بھی مرتب ہوتی ہے یعنی دنیا میں تبلیغ اور دعوت اور ڈراوے کے بعد انسان جو بھی کمائے گا اس پر تمام لوگوں کا انجام ہوگا ۔ اگر لوگوں کے کسب وعمل کو دخل نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ تو اس بات پر پوری پوری قدرت رکھتا ہے کہ شیاطین اور ان کی دوست اقوام کو صفحہ ہستی سے مٹا دے اور ان کی جگہ دوسری فرمانبردار اقوام کو لے کو آئے کیونکہ پوری دنیا کی آبادی اللہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی ۔ یہ تمام امور نظریاتی عقائد کے ساتھ متعلق ہیں ۔ اور ان کو ذبیحوں کے حلال و حرام کی بحث کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے ۔ اس بحث سے قبل بھی اور بعد میں بھی ۔ ذبیحوں کے بیان کے بعد پھلوں اور مویشیوں اور اولاد کی نذر کے مسئلے کو بھی یہاں لیا گیا ہے ‘ اس کا بھی یہاں نظریاتی پہلو ہے اور جاہلیت کے مختلف ادوار میں یہ رسوم کچھ نظریات پر مبنی تھیں ۔ اس طرح یہ تمام مباحث ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ اور پیوستہ نظر آتے ہیں ۔ اور یہ مسئلہ اسلامی نظام میں اس کی حقیقی حیثیت اور مقام میں نظر آتا ہے ۔ ان سب کے اندر مشترکہ صفت یہ ہے کہ ان تمام مسائل کا ایک نظریاتی پہلو ہے اور وہ یہ کہ اسلامی نظریہ حیات کے مطابق حلال و حرام کے تعین کا اختیار صرف اللہ کو ہے ۔