You are reading a tafsir for the group of verses 6:125 to 6:127
فَمَنْ
یُّرِدِ
اللّٰهُ
اَنْ
یَّهْدِیَهٗ
یَشْرَحْ
صَدْرَهٗ
لِلْاِسْلَامِ ۚ
وَمَنْ
یُّرِدْ
اَنْ
یُّضِلَّهٗ
یَجْعَلْ
صَدْرَهٗ
ضَیِّقًا
حَرَجًا
كَاَنَّمَا
یَصَّعَّدُ
فِی
السَّمَآءِ ؕ
كَذٰلِكَ
یَجْعَلُ
اللّٰهُ
الرِّجْسَ
عَلَی
الَّذِیْنَ
لَا
یُؤْمِنُوْنَ
۟
وَهٰذَا
صِرَاطُ
رَبِّكَ
مُسْتَقِیْمًا ؕ
قَدْ
فَصَّلْنَا
الْاٰیٰتِ
لِقَوْمٍ
یَّذَّكَّرُوْنَ
۟
لَهُمْ
دَارُ
السَّلٰمِ
عِنْدَ
رَبِّهِمْ
وَهُوَ
وَلِیُّهُمْ
بِمَا
كَانُوْا
یَعْمَلُوْنَ
۟
3

حق اپنی ذات میں اتنا واضح ہے کہ اس کا سمجھنا کبھی کسی آدمی کے لیے مشکل نہ ہو۔ پھر بھی ہر زمانہ میں بے شمار لوگ حق کی وضاحت کے باوجود حق کو قبول نہیں کرتے۔ اس کی وجہ ان کے اندر کی وہ رکاوٹیں ہیں جو وہ اپنی نفسیات میں پیدا کرلیتے ہیں۔ کوئی اپنے آپ کو مقدس ہستیوں سے اتنا زیادہ وابستہ کرلیتاہے کہ ان کوچھوڑتے ہوئے اس کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ بالکل برباد ہوجائے گا۔ کسی کا حال یہ ہوتا ہے کہ اپنی مصلحتوں کا نظام ٹوٹنے کا اندیشہ اس کے اوپر اتنا زیادہ چھا جاتا ہے کہ اس کے لیے حق کی طرف اقدام کرنا ممکن نہیں رہتا۔ کسی کو نظر آتا ہے کہ حق کو ماننا اپنی بڑائی کے مینار کو اپنے ہاتھ سے ڈھا دینا ہے۔ کسی کو محسوس ہوتا ہے کہ ماحول کے رواج کے خلاف ایک بات کو اگر میں نے مان لیا تو میں سارے ماحول میں اجنبی بن کر رہ جاؤں گا۔ اس طرح کے خیالات آدمی کے اوپر اتنا مسلط ہوجاتے ہیں کہ حق کو ماننا اس کو ایک بے حد مشکل بلندی پرچڑھائی کے ہم معنی نظر آنے لگتاہے جس کو دیکھ کر ہی آدمی کا دل تنگ ہونے لگتا ہے۔

اس کے برعکس، معاملہ ان لوگوں کا ہے جو نفسیاتی پیچیدگیوں میں مبتلا نہیں ہوتے، جو حق کو ہر دوسری چیز سے اعلیٰ سمجھتے ہیں۔ وہ پہلے سچے متلاشی بنے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس ليے جب حق ان کے سامنے آتا ہے تو بلا تاخیر وہ اس کو پہچان لیتے ہیں اور تمام عذرات اور اندیشوں کو نظر انداز کرکے اس کو قبول کرلیتے ہیں۔

خدا اپنے حق کو نشانیوں (اشاراتی حقائق) کی صورت میں لوگوں کے سامنے لاتا ہے۔ اب جو لوگ اپنے دلوں میں کمزوریاں ليے ہوئے ہیں وہ ان اشارات کی خود ساختہ تاویل کرکے اپنے لیے اس کو نہ ماننے کا جواز بنا لیتے ہیں۔ اور جن لوگوں کے سینے کھلے ہوتے ہیں وہ اشارات کو ان کی اصل گہرائیوں کے ساتھ پالیتے ہیں اور ان کو اپنے ذہن کی غذا بنا لیتے ہیں۔ ان کی زندگی فی الفور اس سیدھے راستہ پر چل پڑتی ہے جو خدا کی براہِ راست رہنمائی میں طے ہوتا ہے اور بالآخر آدمی کو ابدی کامیابی کے مقام پر پہنچا دیتاہے۔

خدا کے یہاں جو کچھ قیمت ہے وہ عمل کی ہے، نہ کہ کسی اور چیز کی۔ جو شخص عملی طورپر خدا کی فرماں برداری اختیار کرے گا، وہی اس قابل ٹھهرے گا کہ خدا اس کی دست گیری کرے، اور اس کو اپنے سلامتی کے گھر تک پہنچا دے۔ یہ سلامتی کا گھر خدا کی جنت ہے جہاں آدمی ہر قسم کے دکھ ا ور آفت سے محفوظ رہ کر ابدی سکون کی زندگی گزارے گا۔ خدا کی یہ مدد افراد کو ان کے عمل کے مطابق موت کے بعد آنے والی زندگی میں ملے گی۔ لیکن اگر افراد کی قابلِ لحاظ تعداد دنیا میں خدا کی فرماں بردار بن جائے تو ایسی جماعت کو دنیا میں بھی اس کا ایک حصہ دے دیا جاتا ہے۔