(آیت) ” فَمَن یُرِدِ اللّہُ أَن یَہْدِیَہُ یَشْرَحْ صَدْرَہُ لِلإِسْلاَمِ وَمَن یُرِدْ أَن یُضِلَّہُ یَجْعَلْ صَدْرَہُ ضَیِّقاً حَرَجاً کَأَنَّمَا یَصَّعَّدُ فِیْ السَّمَاء کَذَلِکَ یَجْعَلُ اللّہُ الرِّجْسَ عَلَی الَّذِیْنَ لاَ یُؤْمِنُونَ (125)
” پس حقیقت یہ ہے کہ اللہ جسے ہدایت بخشنے کا ارادہ کرتا ہے اس کا سینے کو تنگ کردیتا ہے اور ایسا بھینچتا کہ اسے یوں معلوم ہونے لگتا ہے کہ گویا اس کی روح آسمان کی طرف پرواز کر رہی ہے ۔ اس طرح اللہ ناپاکی ان لوگوں پر مسلط کردیتا ہے جو ایمان نہیں لاتے ۔ ‘
اللہ تعالیٰ نے اس جہاں میں ہر شخص کو اختیار تمیزی اور آزادی دی ہے کہ ضلالت اختیار کرے یا ہدایت ۔ اب جو شخص اللہ تعالیٰ کی اس سنت جاریہ کے مطابق جو اس نے اس کائنات میں ہدایت کے سلسلے میں وضع فرمائی ہے راہ کے حصول میں دلچسپی رکھتا ہے اور اسے آزمانے کے لئے اسے جو اختیار دیا گیا ہے اور وہ اس کو استعمال کر کے ہدایت کے لئے سعی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے سینہ کو اسلام کے لئے کھول دیتا ہے ۔ اس کے دل کے دریچے کھل جاتے ہیں اور وہ بسہولت اسلام کو قبول کرتا ہے اور اس میں دلچسپی لیتا ہے ‘ اس پر مطمئن ہوجاتا ہے اور وہ اسلام کے ساتھ گھل مل جاتا ہے ۔
اس کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ نے جس کے لئے گمراہی مقدر کردی ہے ‘ اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کی اسی سنت جاریہ کے مطابق اسی شخص کو مقدر کردی جاتی ہے جسے اسلام اور ہدایت سے کوئی دلچسپی نہیں رہتی ۔ اس کے دل کے دریچے بند ہوجاتے ہیں اور اس کا سینہ اسلام کے لئے تنگ ہوجاتا ہے ۔ اس کی حالت یہ ہوجاتی ہے کہ گویا اس کی روح آسمان پر پرواز کرنے والی ہے ۔ چناچہ اس کا دل و دماغ اس کے لئے بند ہوجاتا ہے اور وہ راہ ہدایت کو اختیار کرنے میں نہایت ہی مشکل محسوس کرتا ہے ۔
(آیت) ” کانما یصعد فی السمآئ “۔ کے الفاظ میں ایک نفسیاتی صورت حال کا نقشہ حسی انداز بیان میں کھینچا گیا ہے ۔ ایسے حالات جس میں انسان کی سانس پھول جاتی ہے اور سینہ تنگی محسوس کرتا ہے ‘ جس طرح بلندی پر چڑھتے وقت انسان محسوس کرتا ہے ۔ مفہوم کے ساتھ ساتھ قراۃ حفص کے مطابق لفظ (یصعد) کے اندر بذات خود ایک قسم کی سختی اور مشکل پائی جاتی ہے اور بڑی محنت سے یہ لفظ ادا ہوا ہے ۔ اس لفظ کی آواز ہی سے اس کے مفہوم کی مشکلات کا اندازہ ہوتا ہے ۔ یوں انسان کی نفسیاتی حالت ‘ اس کی حسی حالت اور انداز تعبیر سب کے سب یہاں یکجا اور یک رنگ ہوجاتے ہیں۔ (تفصیلات دیکھئے میری کتاب التصویر الغنی میں بحث حسی تخیل)
یہ منظر اس اختتامیہ پر ختم ہوتا ہے :
(آیت) ” کَذَلِکَ یَجْعَلُ اللّہُ الرِّجْسَ عَلَی الَّذِیْنَ لاَ یُؤْمِنُونَ (125)
” اس طرح اللہ ناپاکی ان لوگوں پر مسلط کردیتا ہے جو ایمان نہیں لاتے ۔ ‘ اسی طرح کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں اپنا نظام قضا وقدر جاری کیا ہے ۔ اس کے مطابق اور اللہ کی جاری وساری سنت کے مطابق جو شخص راہ ہدایت تلاش کرتا ہے اللہ اس کا سینہ کھول دیتا ہے اور جو شخص ہدایت کو پسند نہیں کرتا اللہ اسے گمراہی کے راستے پر ڈال دیتا ہے ۔ اللہ اس طرح ایمان نہ لانے والوں کو گندگی میں ڈال دیتا ہے ۔ (الرجس) کے مفہومات میں سے ایک مفہوم عذاب بھی ہے اور اس کے مفہوم میں گندگی اور ناپاکی بھی ہے اور گراوٹ بھی ہے ۔ یعنی جو شخص اس ناپاکی اور گندگی کے دلدل میں پھنس جاتا ہے وہ اسی میں پڑا رہتا ہے اور رجس کے لفظ کے استعمال سے یہی اشارہ دینا مطلوب ہے ۔
اب ہم اس آیت پر دو بار غور کرتے ہیں :
(آیت) ” فَمَن یُرِدِ اللّہُ أَن یَہْدِیَہُ یَشْرَحْ صَدْرَہُ لِلإِسْلاَمِ وَمَن یُرِدْ أَن یُضِلَّہُ یَجْعَلْ صَدْرَہُ ضَیِّقاً حَرَجاً کَأَنَّمَا یَصَّعَّدُ فِیْ السَّمَاء کَذَلِکَ یَجْعَلُ اللّہُ الرِّجْسَ عَلَی الَّذِیْنَ لاَ یُؤْمِنُونَ (125)
” پس حقیقت یہ ہے کہ اللہ جسے ہدایت بخشنے کا ارادہ کرتا ہے اس کا سینے کو تنگ کردیتا ہے اور ایسا بھینچتا کہ (اسلام کا تصور کرتے ہی) اسے یوں معلوم ہونے لگتا ہے کہ گویا اس کی روح آسمان کی طرف پرواز کر رہی ہے ۔ اس طرح اللہ (حق سے فرار اور نفرت کی) ناپاکی ان لوگوں پر مسلط کردیتا ہے جو ایمان نہیں لاتے ۔ ‘
اس آیت میں جس عظیم حقیقت کو بیان کیا گیا ہے یعنی مشیت الہیہ اور اس کے ساتھ وہ تمام دوسری آیات ونصوص جن کا تعلق اللہ کی مشیت اور انسانی اعمال اور رجحانات سے ہے ‘ اور جن میں انسانی اعمال پر جزا وسزا کو مرتب کیا گیا ہے یا جن میں انسان کی ہدایت اور ضلالت کے احکام مرتب ہوئے ہیں ‘ ان تمام آیات کو صحیح طرح سمجھنے کے لئے عقلی اور فلسفیانہ منطق کے سوا ایک دوسری منطق اور قوت ادراک کی ضرورت ہے ۔ یہ منطق اور قوت ادراک ‘ ہماری ظاہری عقل اور منطق سے وراء ہے ۔ اس سلسلے میں اسلامی افکار کی تاریخ میں جو بحثیں معتزلہ اور اہل سنت کے درمیان ہوئی ہیں اور اہل سنت اور مرجئہ کے درمیان اور اس سے قبل عیسائیوں کے فلسفہ لاہوت کے اندر جو بحث وجدال رہی ہے اس سلسلہ میں جو منطقی صغری وکبری متعین ہوئے ان سب سے وہ قوت مدرکہ ورا ہے ۔
اس نازک بحث کو سمجھنے کے لئے ہمیں انسان کی عقلی اور منطقی دنیا سے ذرا آگے جانا ہوگا اور اس حقیقت کو سمجھنے کے لئے ہمیں عقلی اور فلسفیانہ دنیا سے ذرا باہر آکر انسان کی عملی زندگی میں آنا ہوگا ۔ قرآن کریم جس صورت حال کی تصویر کشی کر رہا ہے اس کا تعلق انسان کی عملی صورت حالات سے ہے ۔ اس کا تعلق محض عقلی اور فلسفیانہ مباحث سے نہیں ہے ۔ انسان کے واقعی حالات اور اس کے علمی شب وروز جس طرح ہوتے ہیں اور اس کائنات میں جس طرح عملی طور پر چلتے ہیں ان آیات میں ان کی تصویر کشی کی گئی ہے ۔ جب ہم انسان کی عملی دنیا کو دیکھتے ہیں تو اس میں اللہ کی قدرت اور مشیت اور انسان کا ارادہ اور سعی وعمل ساتھ ساتھ چلتے نظر آتے ہیں اور ان کا عملی میدان اس طرح باہم ملا ہوا ہے کہ محض فلسفیانہ منطق اس گتھی کو سلجھا نہیں سکتی ۔
اگر کوئی یہ کہے کہ اللہ کا ارادہ اور تقدیر انسان کو ہدایت یا ضلالت کی طرف دھکیل دیتی ہے تو یہ صورت بھی عملی نہیں ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ بس انسان کا ارادہ اور عمل ہی اس کے انجام کو متعین کرتا ہے تو عملا ایسا بھی نہیں ہے ۔ حقیقت کا تعلق ان دونوں امور کے ساتھ ہے اور وہ اس قدر لطیف اور نظروں سے اوجھل ہے اور اسی طرح بین بین ہے کہ ایک طرف اللہ کی مشیت مطلقہ ہے اور دوسری جانب انسان کا ارادہ اور رجحان ہے ‘ دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور ان کے درمیان عملا تصادم بھی نہیں ہوتا ۔
لیکن جبر واکراہ اور قدرت اختیار کے اس حسین امتزاج کی اصل نوعیت کو ہم محض استدلال یا عقلی سوچ کے ذریعے متعین نہیں کر پاتے ۔ نہ ہم اس کی واضح تعبیر انسانی الفاظ وعبارات میں کرسکتے ہیں ۔ اس لئے کہ انسانی عبارات کسی حقیقت کی حقیقی نوعیت سے عبارت ہوتی ہیں اور جب اصل حقیقت ہی منطقی استدلال اور عقلی فکر کی رینج سے باہر ہو تو عبارات اور اسلوب اظہار کیا کرسکتا ہے ۔
اس عظیم عملی حقیقت کے صحیح تصور کے لئے اس بات کی ضرورت ہے کہ انسان کو بیک وقت عقلی اور روحانی دنیا کا تجربہ ہو ۔ عملا یہ ہوتا ہے کہ جس شخص کا فطری میلان اسلام کی طرف ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے دل کو اسلام کے لئے کھول دیتا ہے ۔ یہ بات قطعی طور پر اللہ کا فعل ہوتی ہے اس لئے کہ یہ شرح صدر ایک وقوعہ ہے اور کوئی وقوعہ اللہ کی تخلیق کے بغیر ظہور پذیر نہیں ہو سکتا ۔ اور جس کی فطرت ضلالت کی طرف متوجہ ہوتی ہے تو وہ اپنے دل میں تنگی اور گھٹن محسوس کرتا ہے اور اسلام وہدایت کا تصور کرتے ہی وہ مشکل محسوس کرتا ہے ۔ یہ بھی اللہ کا کام ہے کیونکہ یہ بھی ایک وقوعہ ہے اور اس کا ظہور بھی اللہ کی تخلیق اور عملا اس کی مشیت کے بغیر نہیں ہوسکتا ۔ یہ دونوں امور اس ارادے کے تابع ہیں جو اللہ کی ذات انسانوں کے بارے میں فرماتی ہے ۔ لیکن اللہ کے اس ارادے کو جبری ارادہ نہیں کہہ سکتے ۔ یہ ارادہ اللہ کی سنت جاریہ کے مطابق ہے ۔ وہ سنت یہ ہے کہ اللہ نے حضرت انسان کو ایک مخصوص مقدار میں آزادی عطا کرکے اسے آزمائش میں ڈال دیا ہے اور اللہ کی یہ سنت اور یہ تقدیر انسان کی جانب سے اس آزادی کے استعمال کے نتیجے میں اپنا کام کرتی ہے ۔ رہی ہدایت وضلالت تو یہ انسان کے خود اپنے رجحان اور صلاحیت پر مبنی ہے ۔
اگر ہم ایک عقلی صغری کے مقابلے میں ایک عقلی کبری لائیں اور ان صغری اور کبری کے قضیوں کے ساتھ روحانی اور باطنی علم کو نہ ملائیں اور نہ ہی اس کے ساتھ انسان کے عملی اور نفسیاتی تجربات کو شامل کریں تو ہم اس عظیم حقیقت کو اپنے ادراک کے دائرے میں نہیں لا سکتے ۔ پوری اسلامی تاریخ میں اس مسئلے پر جو بحث وجدال رہا اس کا یہی نتیجہ نکلا ہے ۔
اور طرح اسلام کے علاوہ دوسرے فلسفوں کا نتیجہ بھی ایسا ہی رہا ہے ۔ لہذا اس مسئلے کو سمجھنے کے لئے ہمیں عملی اور روحانی ذوق کو بھی استعمال کرنا ہوگا ۔ ایسا ذوق جو اس حقیقت کو منطقی صغری وکبری سے نکل کر براہ راست پاسکے ۔
اب ہم دوبارہ سیاق قرآن کی طرف لوٹتے ہیں ۔ اس سبق کی یہ لہر سابق بیان پر بطور تبصرہ وارد ہوئی ۔ سابق بیان ذبیحوں کی حلت اور حرمت کے بارے میں تھا لیکن یہ تمام امور دراصل ایک ہی پیکج کے مختلف حصے ہیں ۔ انسان کے اندر دینی شعور کی تعمیر ‘ انسان کے لئے قانون اور اقتدار کی تجویز ‘ انسان پر اللہ کی حاکمیت کا تصور اور ان سب کو دائرہ ایمان کے اندر لا کر ایک ہی پیکج بنا دینا ۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں ایمان اور کفر اور ہدایت وضلالت کے مضمون کو بھی بیچ میں بیان کردیا گیا ۔ اب آخر میں ایک دوسرا تبصرہ آتا ہے جس کے نتیجے میں یہ تمام امور باہم مربوط ہوجاتے ہیں ۔ ان امور کا مجموعہ صراط مستقیم کہلاتا ہے ۔ اگر ان امور میں سے کوئی ایک بھی ترک کردیا گیا تو گویا انسان نے صراط مستقیم کو ترک کردیا ۔ یعنی عقیدہ توحید و شعور بھی اس کا حصہ ہے اور اس راستے پر جا کر انسان دارالسلام تک پہنچتا ہے ۔ اور دارالسلام میں اللہ اہل ایمان کا دوست وولی ہوتا ہے ۔