You are reading a tafsir for the group of verses 6:122 to 6:124
اَوَمَنْ
كَانَ
مَیْتًا
فَاَحْیَیْنٰهُ
وَجَعَلْنَا
لَهٗ
نُوْرًا
یَّمْشِیْ
بِهٖ
فِی
النَّاسِ
كَمَنْ
مَّثَلُهٗ
فِی
الظُّلُمٰتِ
لَیْسَ
بِخَارِجٍ
مِّنْهَا ؕ
كَذٰلِكَ
زُیِّنَ
لِلْكٰفِرِیْنَ
مَا
كَانُوْا
یَعْمَلُوْنَ
۟
وَكَذٰلِكَ
جَعَلْنَا
فِیْ
كُلِّ
قَرْیَةٍ
اَكٰبِرَ
مُجْرِمِیْهَا
لِیَمْكُرُوْا
فِیْهَا ؕ
وَمَا
یَمْكُرُوْنَ
اِلَّا
بِاَنْفُسِهِمْ
وَمَا
یَشْعُرُوْنَ
۟
وَاِذَا
جَآءَتْهُمْ
اٰیَةٌ
قَالُوْا
لَنْ
نُّؤْمِنَ
حَتّٰی
نُؤْتٰی
مِثْلَ
مَاۤ
اُوْتِیَ
رُسُلُ
اللّٰهِ ؔۘؕ
اَللّٰهُ
اَعْلَمُ
حَیْثُ
یَجْعَلُ
رِسَالَتَهٗ ؕ
سَیُصِیْبُ
الَّذِیْنَ
اَجْرَمُوْا
صَغَارٌ
عِنْدَ
اللّٰهِ
وَعَذَابٌ
شَدِیْدٌۢ
بِمَا
كَانُوْا
یَمْكُرُوْنَ
۟
3

اللہ کی نظر میں وہ شخص زندہ ہے جس کے سامنے ہدایت کی روشنی آئی اور اس نے اس کو اپنے راستہ کی روشنی بنالیا۔ اس کے مقابلہ میں مردہ وہ ہے جو ہدایت کی روشنی سے محروم ہو کر باطل کے اندھیروں میں بھٹک رہا ہو۔

مُردہ آدمی اوہام وتعصبات کے جال میں اتنا پھنسا ہوا ہوتا ہے کہ سیدھے اور سچے حقائق اس کے ذہن کی گرفت میں نہیں آتے۔ وہ اشیاء کی ماہیت سے اتنا بے خبر ہوتا ہے کہ لفظی بحث اور حقیقی کلام میں فرق نہیں کر پاتا۔ وہ اپنی بڑائی کے تصور میں اتنا ڈوبا ہوا ہوتا ہے کہ کسی دوسرے کی طرف سے آئی ہوئی سچائی کا اعتراف کرنا اس کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ اس کے ذہن پر رواجی خیالات کا اتنا غلبہ ہوتا ہے کہ ان سے ہٹ کر کسی اور معیار پر وہ چیزوں کو جانچ نہیں پاتا۔ اپنی ان کمزوریوں کی بنا پر وہ اندھیرے میں بھٹکتا رہتا ہے، بظاہر زندہ ہوتے ہوئے بھی وہ ایک مُردہ انسان بن جاتاہے۔

اس کے برعکس جو شخص ہدایت کے لیے اپنا سینہ کھول دیتا ہے وہ ہر قسم کی نفسیاتی گرہوں سے آزاد ہوجاتا ہے۔ سچائی کو پہچاننے میں اسے ذرا بھی دیر نہیں لگتی۔ الفاظ کے پردے کبھی اس کے لیے حقیقت کا چہرہ دیکھنے میں رکاوٹ نہیں بنتے۔ ذوق اور عادت کے مسائل اس کی زندگی میں کبھی یہ مقام حاصل نهيں کرتے کہ اس کے اور حق کے درمیان حائل ہوجائیں۔ سچائی اس کے لیے ایک ایسی روشن حقیقت بن جاتی ہے جس كو دیکھنے میں اس کی نظر کبھی نہ چوکے اور جس کو پانے کے لیے وہ کبھی سست ثابت نہ ہو۔ وہ خود بھی حق کی روشنی میں چلتا ہے اور دوسروں کو بھی اس میں چلانے کی کوشش کرتا ہے۔

وہ لوگ جو خود ساختہ چیزوں کو خدا کا مذہب بتا کر عوام کا مرجع بنے ہوئے ہوتے ہیں وہ ہر ایسی آواز کے دشمن بن جاتے ہیں جو لوگوں کو سچے دین کی طرف پکارے۔ ایسی ہر آواز ان کو اپنے خلاف بے اعتمادی کی تحریک دکھائی دیتی ہے۔یہ وقت کے بڑے لوگ حق کی دعوت میں ایسے شوشے نکالتے ہیں جس سے وہ عوام کو اس سے متاثر ہونے سے روک سکیں۔ وہ حق کے دلائل کو غلط رخ دے کر عوام کو شبہات میں مبتلا کرتے ہیں۔ حتی کہ بے بنیاد باتوں کے ذریعے داعی کی ذات کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر اس قسم کی کوششیں صرف ان کے جرم کو بڑھاتی ہیں، وہ داعی اور دعوت کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتیں — حق پرست وہ ہے جو حق کو اس وقت دیکھ لے جب کہ اس کے ساتھ دنیوی عظمتیں شامل نہ ہوئی ہوں۔ دنیوی عظمت والے حق کو ماننا دراصل دنیوی عظمتوں کو ماننا ہے نہ کہ خدا کی طرف سے آئے ہوئے حق کو۔