(آیت) ” وَکَذَلِکَ جَعَلْنَا فِیْ کُلِّ قَرْیَۃٍ أَکَابِرَ مُجَرِمِیْہَا لِیَمْکُرُواْ فِیْہَا وَمَا یَمْکُرُونَ إِلاَّ بِأَنفُسِہِمْ وَمَا یَشْعُرُونَ (123)
” اور اسی طرح ہم نے ہر بستی میں اس کے بڑے بڑے مجرموں کو لگا دیا ہے کہ وہاں اپنے مکروفریب کا جال پھیلائیں ۔ دراصل وہ اپنے فریب کے جال میں خود پھنسے ہیں مگر انہیں اس کا شعور نہیں ہے ۔ “
یہ اللہ کی سنت ہے کہ وہ ہر بستی ‘ شہر یا دارالخلافہ میں بڑے بڑے مجرمین میں کچھ لوگوں کو مقتدر بنا دیتا ہے ۔ یہ جرائم پیشہ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دین کے دشمن ہوتے ہیں اور یہ دین کے دشمن اس لئے ہوتے ہیں کہ بستیوں کے اوپر اقتدار حاصل کرکے اسے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں ۔ دین ان سے اس اقتدار کو چھین کر اسے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتا ہے ۔ یوں دین ان سے ربوبیت اور حاکمیت کی حیثیت چھین لیتا ہے اور لوگوں کو آزادی حاصل ہوجاتی ہے ۔ یوں دین تمام لوگوں کو اللہ کی غلامی میں دے دیتا ہے اور اللہ ہی رب الناس اور ملک الناس قرار پاتا ہے ۔
یہ سنت الہیہ ہے کہ اللہ سچائی کے ساتھ رسولوں کو بھیجے اور یہ سچائی تمام مدعیان ربوبیت سے ان کی ربوبیت چھین لے اور تمام مدعیان حاکمیت سے ان کا حق اقتدار چھین لے ۔ چناچہ سچائی کے باوجود یہ اکابر مجرمین رسولوں اور سچائی کے دشمن ہوجاتے ہیں اور بستیوں اور دارالحکومتوں میں اپنی مکاری کے جال پھیلاتے ہیں ۔ تمام لوگ اپنے اپنے دارالخلافوں سے ایک دوسرے کو ہدایت اور رپورٹیں دیتے ہیں جو فریب پر مبنی ہوتی ہیں اور یہ لوگ معرکہ حق و باطل میں شیاطین کے معاون بنتے ہیں ۔ باطل اور گمراہی کو پھیلانے کی سعی کرتے رہتے ہیں اور اپنی اس ظاہری اور خفیہ سازش کی وجہ سے لوگوں کو حقیر سمجھتے ہیں ۔
یہ سنت جاریہ اور ہمہ گیر معرکہ ہے ۔ اس لئے کہ دونوں قوتوں کے درمیان اصل اول ہی کی بنا پر تضاد ووجود میں آگیا ہے ۔ اصل اول یہ ہے کہ حاکمیت اور اقتدار اعلیٰ صرف اللہ جل شانہ کے ساتھ مخصوص ہے جبکہ کسی بھی بستی کے مجرمین کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ اس بستی میں ان کی بات کی چلت ہو اس کے علاوہ اہل حق اور ان اکابر مجرمین کے درمیان ذاتی تضاد بھی ہوتا ہے ۔
ہر نبی کو اس معرکے سے دوچار ہونا پڑتا ہے ۔ کوئی نبی اس سے بچ نہیں سکتا ۔ نبی اور اہل ایمان کے لئے لازمی ہے کہ وہ اس معرکے میں کو دیں اور آخر کار میں اس میں سے سرخروئی کے ساتھ نکلیں ۔ اللہ اپنے دوستوں کو اطمینان دلاتے ہیں کہ ان مجرمین کا مکر و فریب کتنا ہی عظیم کیوں نہ ہو اور ان کا حال طویل سے طویل ترکیوں نہ ہو ؟ آخر کار یہ مکر خود ان پر آکر پڑے گا ۔ اس لئے کہ اہل ایمان صرف تنہا اس معرکے میں نہیں کودتے اللہ ان کے ساتھ ہوتا ہے اور وہ ان کے لئے کافی مددگار ہے ۔ وہ کافرین کی سازش کو خود ان پر لوٹاتا ہے ۔ ” دراصل وہ خود اپنے فریب کے جال میں پھنستے ہیں مگر انہیں اس کا شعور نہیں ۔
(آیت) ” وَمَا یَمْکُرُونَ إِلاَّ بِأَنفُسِہِمْ وَمَا یَشْعُرُونَ (123)
” لہذا اہل ایمان کو پوری طرح مطمئن رہنا چاہیے ۔ “
اب قرآن کریم یہ بتاتا ہے کہ اللہ کے رسولوں اور اللہ کے دین کے دشمنوں کے مزاج میں کبر و غرور کا مادہ بھرا ہوتا ہے ۔ اور یہی کبر اس بات کا سبب بنتا ہے کہ وہ اسلام سے دور رہیں اور یہ اس لئے اس نظریہ سے دور بھاگتے ہیں کہ اس میں جس طرح یہ اکابر اللہ کے بندے ہوتے ہیں اس طرح تمام عوام بھی اللہ کے بندے ہوتے ہیں ‘ کوئی طبقاتی فرق باقی نہیں رہتا ۔ چونکہ یہ لوگ اپنے اس طبقاتی فرق و امتیاز کو قائم رکھنا چاہتے ہیں اس لئے ایسے لوگوں کے لئے یہ ایک بڑا کڑوا گھونٹ ہے کہ یہ ایمان لے آئیں اور نبی کے سامنے اطاعت کریں حالانکہ وہ اس بات کے عادی ہیں کہ وہ خود مطاع بنیں اور الوہیت اور ربوبیت کے مقام پر فائز ہوں ‘ قانون سازی کریں اور ان کے قوانین کو تسلیم کیا جائے ۔ وہ احکام دیں اور لوگ ان کے احکام کی اطاعت کریں ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ایسی باتیں کرتے ہیں جو کرنے کی نہیں ہیں ۔ نہایت ہی بےبنیاد بات کرتے ہیں ۔ کہ ہم اس وقت تک ایمان نہ لائیں گے جب تک ہمیں وہ تعلیم نہ دی جائے جو نبیوں کو دی گئی :
(آیت) ” وَإِذَا جَاء تْہُمْ آیَۃٌ قَالُواْ لَن نُّؤْمِنَ حَتَّی نُؤْتَی مِثْلَ مَا أُوتِیَ رُسُلُ اللّہِ “ (6 : 124)
جب ان کے سامنے کوئی آیت آتی ہے تو وہ کہتے ہی ہم نہ مانیں گے جب تک کہ وہ چیز خود ہم کو نہ دی جائے جو اللہ کے رسولوں کو دی گئی ہے۔ “
ولید ابن مغیرہ نے ایک بار کہا : ” کہ اگر نبوت حق بات ہوتی تو میں زیادہ مستحق تھا کہ میں نبی ہوتا ‘ کیونکہ میں عمر میں ’ اے محمد ‘ تم سے بڑا ہو ۔ مال میں تم سے زیادہ ہوں ۔ “ اور ابو جہل نے کہا ’ خدا کی قسم ہم اس تحریک پر راضی نہ ہوں گے اور نہ ہی اس کی اطاعت کریں گے الا یہ کہ ہم پر بھی اسی طرح جبرئیل وحی لے کر آئیں جس طرح اس پر لاتے ہیں ۔
یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ کبر نفس اور اس قسم کے لوگ جس طرح کے عادی ہوتے ہیں کہ یہ احکام صادر کرتے ہیں اور دوسرے لوگ اطاعت کرتے ہیں ایسے امور ہیں جن کی وجہ سے لوگوں کے لئے ضلالت کو مزین کردیا جاتا ہے اور یوں یہ لوگ دین اور داعیان دین (رسل) کے مقابلے میں دشمنی پر اتر آتے ہیں ۔
چناچہ اللہ ایسے لوگوں کے ان اقوال کی تردید فرماتے ہیں ۔ اول یہ کہ کسی کو رسول مقرر کرنا یہ اللہ کے علم محیط پر موقوف ہے کہ کون اس لائق ہے کیونکہ نبوت ایک نہایت ہی اہم کائناتی منصب ہے ۔ اور دوسری بات یہ کہ یہاں اللہ تعالیٰ ان کی تردید سختی ‘ تحقیر اور دھمکی سے کرتے ہیں کہ تمہارا انجام بہت ہی برا ہونے والا ہے ۔