اَوَمَنْ
كَانَ
مَیْتًا
فَاَحْیَیْنٰهُ
وَجَعَلْنَا
لَهٗ
نُوْرًا
یَّمْشِیْ
بِهٖ
فِی
النَّاسِ
كَمَنْ
مَّثَلُهٗ
فِی
الظُّلُمٰتِ
لَیْسَ
بِخَارِجٍ
مِّنْهَا ؕ
كَذٰلِكَ
زُیِّنَ
لِلْكٰفِرِیْنَ
مَا
كَانُوْا
یَعْمَلُوْنَ
۟
3

آیت 122 اَوَ مَنْ کَانَ مَیْتًا فَاَحْیَیْنٰہُ اس سے معنوی حیات و ممات مراد ہے ‘ یعنی ایک شخص جو اللہ سے واقف نہیں تھا ‘ صرف دنیا کا بندہ بنا ہوا تھا ‘ اس کی انسانیت در حقیقت مردہ تھی ‘ وہ حیوان کی حیثیت سے تو زندہ تھا لیکن بحیثیت انسان وہ مردہ تھا ‘ پھر اللہ تعالیٰ نے اسے ایمان کی ہدایت دی تو اب گویا وہ زندہ ہوگیا۔وَجَعَلْنَا لَہٗ نُوْرًا یَّمْشِیْ بِہٖ فِی النَّاسِ کَمَنْ مَّثَلُہٗ فِی الظُّلُمٰتِ لَیْسَ بِخَارِجٍ مِّنْہَا ط کَذٰلِکَ زُیِّنَ لِلْکٰفِرِیْنَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ مثال کے طور پر ایک وہ شخص تھا جسے پہلے ہوش نہیں تھا ‘ کبھی اس نے نظریاتی معاملات کی پیچیدگیوں کی طرف توجہ ہی نہیں کی تھی ‘ لیکن پھر اس کو اللہ نے ہدایت دے دی ‘ نور قرآن سے اس کے سینے کو منور کردیا ‘ اب وہ اس نور میں آگے بڑھا اور بڑھتا چلا گیا۔ جیسے حضرت عمر رض کو حق کی طرف متوجہ ہونے میں چھ سال لگ گئے۔ حضرت حمزہ رض بھی چھ سال بعد ایمان لائے۔ لیکن اب انہوں نے قرآن کو مشعل راہ بنایا اور اللہ کے راستے میں سرفروشی کی مثالیں پیش کیں۔ دوسری طرف وہ لوگ بھی تھے جو ساری عمر انہی اندھیروں میں ہی بھٹکتے رہے اور اسی حالت میں انہیں موت آئی۔ تو کیا یہ دونوں طرح کے لوگ برابر ہوسکتے ہیں ؟