وَلَا
تَاْكُلُوْا
مِمَّا
لَمْ
یُذْكَرِ
اسْمُ
اللّٰهِ
عَلَیْهِ
وَاِنَّهٗ
لَفِسْقٌ ؕ
وَاِنَّ
الشَّیٰطِیْنَ
لَیُوْحُوْنَ
اِلٰۤی
اَوْلِیٰٓـِٕهِمْ
لِیُجَادِلُوْكُمْ ۚ
وَاِنْ
اَطَعْتُمُوْهُمْ
اِنَّكُمْ
لَمُشْرِكُوْنَ
۟۠
3

(آیت) ” نمبر 121۔

اس کے بعد ایک بار پھر کفر و ایمان کی اصل حقیقت پر بات کی جاتی ہے اور دو بار تکرار کا مطلب ہے کہ اسلام میں حلال و حرام قرار دینے کا تعلق کفر واسلام سے ہے ۔

یہ بار بار کی تاکید ‘ یہ بار بار کے ربط اور بات کو دہرانے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ اسلام کی نظر میں قانون سازی اور اقتدار اعلی انسان کی روز مرہ زندگی کے اندر کس قدر اہمیت رکھتے ہیں ۔

ّ (آیت) ” أَفَغَیْْرَ اللّہِ أَبْتَغِیْ حَکَماً وَہُوَ الَّذِیْ أَنَزَلَ إِلَیْْکُمُ الْکِتَابَ مُفَصَّلاً وَالَّذِیْنَ آتَیْْنَاہُمُ الْکِتَابَ یَعْلَمُونَ أَنَّہُ مُنَزَّلٌ مِّن رَّبِّکَ بِالْحَقِّ فَلاَ تَکُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ (114)

” پھر جب حال یہ ہے تو کیا میں اللہ کے سوا کوئی اور فیصلہ کرنے والا تلاش کروں ‘ حالانکہ اس نے پوری تفصیل کے ساتھ تمہاری طرف کتاب نازل کردی ہے ‘ اور جن لوگوں کو ہم نے تم سے پہلے کتاب دی تھی وہ جانتے تھے کہ یہ کتاب تمہارے رب ہی کی طرف سے حق کے ساتھ نازل ہوئی ہے لہذا تم شک کرنے والوں میں شامل نہ ہو ۔

یہ رسول اللہ ﷺ کی زبانی ایک سوال ہے اور یہ استفہام انکاری ہے ۔ یہ تنبیہ اس بات پر کی گئی ہے کہ کسی کے لئے یہ کوئی درست رویہ نہیں ہے کہ وہ اپنی زندگی کے معاملات میں سے کسی معاملے میں بھی اللہ کے سوا کسی اور کو حاکم اور فیصلہ کنندہ تسلیم کرے ۔ چناچہ اس طرح اس بات کا فیصلہ کردیا جاتا ہے کہ اسلامی نظام میں زندگی کے تمام معاملات میں فیصلہ صرف اللہ کے اختیار میں ہوگا اور یہ ایک غیر متنازعہ بات ہے اور اس بات کی ممانعت کردی جاتی ہے کہ اللہ کے سوا کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو انسانوں کی زندگیوں میں فیصلے کرنے کا مجاز ہو اور اپنی مرضی کے مطابق وہ ایسا کرتا رہے ۔

(آیت) ” أَفَغَیْْرَ اللّہِ أَبْتَغِیْ حَکَماً “۔ ” کیا میں اللہ کے سوا کوئی اور فیصلہ کرنے والا تلاش کروں ؟ “

اس کے بعد اس ناگوار احساس کی تفصیل آتی ہے ‘ ان حالات کی تفصیل بھی بیان کردی جاتی ہے جن کی وجہ سے اللہ کے سوا دوسروں کا اقتدار اعلی ایک قابل سرزنش فعل قرار پاتا ہے ۔ اللہ نے ہر چیز کی تفصیلات دے دی ہیں اور اور بندوں کو اس بات کا محتاج نہیں چھوڑا کہ وہ اپنے لئے خود راہ ہدایت تلاش کرتے پھریں ‘ یا اللہ کے سوا کسی دوسری جگہ سے اپنی زندگی کے مسائل کے فیصلے لیں ۔ اور مشکلات حیات کو حل کریں ۔

(آیت) ” وَہُوَ الَّذِیْ أَنَزَلَ إِلَیْْکُمُ الْکِتَابَ مُفَصَّلاً “۔ ‘” حالانکہ اس نے پوری تفصیل کے ساتھ تمہاری طرف کتاب نازل کردی ہے ‘ “۔ یہ کتاب اس لئے نازل کی گئی ہے کہ وہ لوگوں کے درمیان ان معاملات کے فیصلے کرے جن کے بارے میں ان کے درمیان اختلاف ہو اور یوں اللہ کی حاکمیت اور اقتدار اعلی کا ظہور ہو ۔ پھر اللہ نے یہ کتاب نہایت ہی مفصل طور پر نازل کی ہے ۔ اس میں وہ تمام اصول منضبط کردیئے گئے ہیں جن کے اوپر پورا نظام زندگی استوار ہوگا ۔ اس میں بعض فروعی اور جزئی مسائل بھی بیان کردیئے گئے ہیں جن کے بارے میں اللہ کی مرضی یہ تھی کہ وہ انسانی معاشرے کے لئے دائمی احکام ہوں چاہے وہ معاشرہ جس قدر بھی ترقی یافتہ ہو اور علمی لحاظ سے وہ بہت ہی آگے کیوں نہ بڑھ گیا ہو ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کتاب کے ہوتے ہوئے پھر کسی دوسرے پلیٹ فارم سے فیصلہ لینے کی سرے سے ضرورت ہی نہیں رہتی ۔ یہ ہے وہ فیصلہ جو اللہ تعالیٰ نے اپنی اس کتاب کے مقام کے بارے میں کیا ہے ۔ اب اگر کوئی یہ کہتا ہے : ” کہ دنیا ترقی کرچکی ہے اور اب اسے اس کتاب کی طرف رجوع کی ضرورت نہیں ہے تو ہزار بار کہتا پھرے لیکن اسے اس قول کے ساتھ ایک اور بات بھی صاف صاف کہہ دینا چاہئے وہ یہ کہ میں (نعوذ باللہ) کافر ہوں ‘ اس دین اسلام کا منکر ہوں اور اللہ رب العالمین کے اقوال کی تکذیب کرتا ہوں۔

یہاں ان لوگوں کے اردگرد ایک مخصوص صورت حالات بھی موجود ہے ‘ جس کے اندر زندگی کے حالات میں سے کسی حال میں بھی اللہ کے سوا کسی اور مصدر سے فیصلہ طلب کرنا نہایت ہی مکروہ عمل قرار پاتا ہے ‘ اور نہایت ہی عجیب سا لگتا ہے ۔ وہ یہ کہ جن لوگوں کو اس سے قبل آسمانی کتابیں دی گئیں ۔ وہ جانتے ہیں کہ یہ قرآن بھی منزل من اللہ ہے اس لئے کہ وہ کتب سماوی کے بارے میں معرفت رکھنے والے ہیں۔

(آیت) ” وَالَّذِیْنَ آتَیْْنَاہُمُ الْکِتَابَ یَعْلَمُونَ أَنَّہُ مُنَزَّلٌ مِّن رَّبِّکَ بِالْحَقِّ (6 : 113)

” اور جن لوگوں کو ہم نے (تم سے پہلے) کتاب دی تھی وہ جانتے ہیں کہ یہ کتاب ہمارے رب ہی کی طرف سے حق کے ساتھ نازل ہوئی ہے ۔ “

یہ صورت حالات مکہ مکرمہ اور جزیرۃ العرب میں موجود تھی اس لئے اللہ تعالیٰ مشرکین کو اس طرف متوجہ فرماتے ہیں ۔ چاہے اہل کتاب اس حقیقت کو مان کردیں جس طرح بعض لوگوں نے کیا بھی جن کے دل اللہ نے اسلام کے لئے کھول دیئے تھے یا وہ اسے چھپا دیں اور اس کا اظہار نہ کریں ۔ اکثر اہل کتاب نے یہی رویہ اختیار کیا ‘ لیکن دونوں صورتوں میں یہ حقیقت اپنی جگہ موجود تھی کہ اہل کتاب حقیقت سے باخبر تھے ۔ خود اللہ تعالیٰ ان کے علم کے بارے میں شہادت دیتے ہیں اور اللہ کی شہادت سچی ہوتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ واضح الفاظ میں فرماتے ہیں کہ یہ لوگ (یعلمون) جانتے ہیں کہ قرآن اللہ کی جانب سے سچائی لے کر نازل ہوا ہے اور اس میں صرف سچائی ہی سچائی ہے اور یہ سچائی منزل من اللہ ہے ۔

آج بھی اہل کتاب اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ کتاب اللہ کی طرف سے حق کے ساتھ نازل ہوئی ہے ۔ وہ اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ اس دین کی قوت کا راز صرف یہ ہے کہ اس کی پشت پر عظیم سچائی ہے اور قرآن کریم اسی عظیم سچائی پر مشتمل ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے اس علم کی وجہ سے اس دین کے خلاف اس بےجگری سے مسلسل لڑ رہے ہیں ۔ وہ اس کتاب سے بھی لڑتے ہیں اور ان کی یہ لڑائی اس دین کے آغاز سے آج تک جاری ہے ۔ یہ نہایت ہی شدید اور تکلیف دہ جنگ ہے ۔ یہ جنگ اہل کتاب محض اس مقصد کے لئے لڑ رہے ہیں کہ مسلمانوں کی زندگی کے اوپر سے اس کتاب کی حاکمیت ختم کردیں اور مسلمانوں کی زندگی کچھ دوسری کتابوں اور کچھ دوسرے وضعی قوانین کی حکمرانی میں آجائے ۔ وہ اللہ کے سوا کسی اور کو جج اور حاکم بنا لیں تاکہ یہ کتاب زندہ نہ رہے اور اللہ کے دین کا کوئی حقیقی وجود نہ رہے ۔ ان کی کوشش ہے وہ ان اسلامی ممالک میں جہاں کبھی اللہ کی حاکمیت قائم تھی کچھ دوسری حاکمیتیں اور اقتدار قائم کردیں حالانکہ کبھی ان ممالک میں وہ نظام اور قانون نافذ تھا جو اس کتاب میں تھا ۔ صرف یہی قانون نافذ تھا اور اس میں اس کے ساتھ کوئی دوسرے قوانین شریک عمل نہ تھے ۔ نہ اللہ کی کتاب کے ساتھ کچھ دوسری کتابیں بھی رائج تھیں جن سے لوگ اصول قانون اور زندگی کی دوسری اقدار اخذ کرتے ہوں اور ان کی دفعات اور آیات کو کتاب اللہ کی طرح بطور اتھارٹی پیش کرتے ہوں ۔ ایسے تمام منصوبوں کے پیچھے اہل کتاب یعنی صلیبی اور صہیونی عزائم کام کر رہے ہوتے ہیں ۔ اس قسم کی تمام سرگرمیاں آج بھی ان اہل کتاب ہی کی ریشہ دوانیوں سے ہوتی ہیں ۔

یہاں کہا گیا کہ اللہ نے اس کتاب کو نہایت مفصل انداز میں نازل کیا ہے اور یہ کہ اہل کتاب اس بات کو اچھی طرح جانتے بھی ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے سچائی کے ساتھ نازل ہوئی ہے ۔ اب روئے سخن حضرت محمد ﷺ کی طرف پھرجاتا ہے اور آپ کے واسطہ سے تمام اہل ایمان کو یہ حقیقت بتلائی جاتی ہے اور یہ تسلی دی جاتی ہے کہ آپ اہل کتاب کے جدل وجدال اور تکذیب اور روگردانی سے دل تنگ نہ ہوں ۔ وہ جو حق کو چھپا رہے ہیں جانتے ہیں کہ حقیقت کیا ہے ۔ یہ بات آپ کے لئے گرانبارنہ وہ۔

ّ (آیت) ” (فلا تکونن من الممترین) (6 : 114) ” لہذا تم شک کرنے والوں میں شامل نہ ہو ۔ “ رسول اللہ ﷺ نے تو کبھی شک اور شبہ نہیں کیا ۔ حدیث میں آتا ہے کہ جب آپ پر سورة یونس کی یہ آیت نازل ہوئی :

(آیت) ” فان کنت فی شک مما انزلنا الیک فسئل الذین یقرء ون الکتب من قبلک لقد جآءک الحق من ربک فلا تکونن من الممترین “۔ (10 : 94)

” اب اگر تجھے اس ہدایت کی طرف سے کچھ شک ہو جو ہم نے تجھ پر نازل کی ہے تو ان لوگوں سے پوچھ لے جو پہلے سے کتاب پڑھ رہے ہیں ۔ فی الواقع یہ تیرے پاس حق ہی آیا ہے ‘ تیرے رب کی طرف سے لہذا تو شک کرنے والوں میں نہ ہو۔ “ اس پر حضور ﷺ نے فرمایا : ” میں نہ شک کرتا ہوں اور نہ مجھے ان سے پوچھنے کی ضرورت ہے ۔ “

لیکن ان ہدایات اور اس قسم کی دوسری مثالوں سے جو چیز معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اس دور میں حضور ﷺ اور امت مسلمہ کو نہایت ہی گہری ریشہ دوانیوں اور سازشوں کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا ۔ مخالفین سخت عناد اور انکار کا مظاہرہ کر رہے تھے اور اللہ کی رحمت کا یہ تقاضا تھا کہ آپ کو ایسی سخت ہدایات دے کر آپ اور امت مسلمہ کو سخت موقف اختیار کرنے کی تلقین کی جائے ۔

آگے مزید کہا جاتا ہے کہ اللہ کی دو ٹوک بات اب ختم ہوگئی ہے ‘ مکمل ہوگئی ہے ۔ اللہ کی اتھارٹی کے اوپر کوئی اور اتھارٹی نہیں ہے جو اس فیصلہ کن بات کو بدل دے کیونکہ یہ برحق ہے اور یہ حق ان کی تمام سازشوں تک رسائی رکھتا ہے ۔

(آیت) ” وَتَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ صِدْقاً وَعَدْلاً لاَّ مُبَدِّلِ لِکَلِمَاتِہِ وَہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ (115) “

” تمہارے رب کی بات سچائی اور انصاف کے اعتبار سے کامل ہے ‘ کوئی اس کے فرامین کو تبدیل کرنے والا نہیں ہے اور وہ سننے والا جاننے والا ہے ۔ “ اللہ تعالیٰ نے جو کہنا تھا اور جو فیصلے کرنے تھے وہ سچائی کے ساتھ کردیئے ‘ اور جو قانون سازی کرنی تھی وہ عادلانہ طور پر کردی ۔ اللہ کی بات کے بعد اب نہ کسی کی بات ہے ‘ نہ کوئی نظریہ و عقیدہ ہے ‘ نہ کوئی اصول و قانون ہے اور نہ کوئی قدر ومیزان ہے ۔ اب نہ کوئی قانون اور شریعت کے بارے میں اس کے خلاف کوئی بات کہہ سکتا ہے ‘ نہ کوئی رسم و رواج اس کے مقابلے میں رہ سکتے ہیں ۔ نہ اللہ کی اتھارٹی کے اوپر کوئی اتھارٹی ہے کہ وہ اللہ کی بات کو بدلنے کی مجازہو۔

(آیت) ” (وھو السمیع العلیم) (6 : 115) ’ وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے ۔ “ اس کے بندے جو کچھ کہتے ہیں وہ سنتا ہے اور ان کے اقوال کے پس منظر کو بھی جانتا ہے اور ان کے مصالح ومفادات کو بھی اچھی طرح جانتا ہے ۔

یہ فیصلہ کرنے کے بعد کہ سچائی وہی ہے جو کتاب اللہ میں ہے اور جو اللہ نے نازل کی ہے ‘ یہ بھی فیصلہ کردیا جاتا ہے کہ کتاب اللہ کی سوچ کے مقابلے میں انسان جو سوچ پیش کرتا ہے وہ محض ظن وتخمین کے پائے چوبیں پر قائم ہوتی ہے ۔ جو لوگ انسانی سوچ کی پیروی کرتے ہیں وہ محض ظن وتخمین کی پیروی کرتے ہیں اور ان کا انجام صرف یہی ہوگا کہ وہ سیدھے راستے سے بھٹک جائیں گے ۔ انسانوں کی سوچ صرف اسی وقت درست اور ہدایت یافتہ ہو سکتی ہے جب وہ کتاب اللہ سے ماخوذ ہو جو ایک یقینی مصدر ہدایت ہے ۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ رسول اللہ ﷺ کو بھی متنبہ فرماتے ہیں کہ وہ لوگوں کی ان باتوں پر دھیان نہ دیں جو وہ محض انسانی سوچ کی بنیاد پر کرتے ہیں اگرچہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس سوچ کی ماننے والی ہو ‘ اس لئے کہ جاہلیت بہرحال جاہلیت ہوتی ہے ‘ چاہے اس کے ماننے والے زیادہ ہوں یا کم ‘ بہرحال وہ گمراہ ہوتے ہیں ۔

(آیت) ” وَإِن تُطِعْ أَکْثَرَ مَن فِیْ الأَرْضِ یُضِلُّوکَ عَن سَبِیْلِ اللّہِ إِن یَتَّبِعُونَ إِلاَّ الظَّنَّ وَإِنْ ہُمْ إِلاَّ یَخْرُصُونَ (116)

” اے نبی ﷺ اگر تم ان لوگوں کی اکثریت کے کہنے پر چلو جو زمین پر میں بستے ہیں تو وہ تمہیں اللہ کے راستے سے بھٹکا دیں گے ۔ وہ تو بس گمان پر چلتے اور قیاس آرائیاں کرتے ہیں ۔

زمین پر بسنے والے لوگوں کی اکثریت ‘ نزول قرآن کے وقت اہل جاہلیت پر مشتمل تھی ‘ جس طرح آج ہمارے دور میں لوگوں کی اکثریت ‘ نزول قرآن کے وقت اہل جاہلیت پر مشتمل تھی ‘ جس طرح آج ہمارے دور میں لوگوں کی اکثریت نے جاہلیت کو اپنا لیا ہے ۔ اس وقت لوگوں کی اکثریت الہی قانون کے مطابق اپنے فیصلے نہ کرتی تھی ‘ نہ انہوں نے اللہ کی کتابوں میں موجود شریعت کو لاء آف دی لینڈ قرار دیا تھا ۔ وہ اپنے تصورات و افکار ‘ اپنی طرز فکر اور طرز زندگی اللہ کی ہدایات اور راہنمائی سے اخذ نہ کرتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی اکثریت نزول قرآن کے وقت جاہلیت میں مبتلا تھی جس طرح آج لوگوں کی اکثریت جاہلیت میں مبتلا ہے ۔ وہ لوگ کوئی فکر ‘ کوئی رائے اور کوئی فیصلہ اس ” حق “ سے اخذ نہ کرتے تھے اور نہ وہ اس سچائی پر مبنی ہوتا تھا ۔ نیز اس دور کے قائدین اپنے متبع لوگوں کی ہدایت کی طرف نہیں بلکہ ضلالت کی طرف لے جاتے تھے ۔ جس طرح آج کی صورت حال ہے کہ لوگ یقینی علم کتاب وسنت کو چھوڑ کر ظن اور تخمین کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ ظن وتخمین صرف گمراہی پر منتج ہو سکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ حضور اکرم ﷺ کو متنبہ کردیا گیا کہ آپ ﷺ نے اگر لوگوں کی اطاعت شروع کردی تو وہ آپ کو گمراہ کردیں گے ۔ اللہ نے حضور ﷺ کو عمومی ہدایات اگرچہ شان نزول کے اعتبار سے دی ہیں تاہم یہ ہدایت ایک مخصوص مسئلے یعنی ذبیحوں کے ضمن میں آئی جیسا کہ آگے تفصیلات آرہی ہیں ۔

اس کے بعد یہ قرار داد آتی ہے کہ بندوں کے بارے میں ہدایت یافتہ ہونے یا گمراہ ہونے کا فیصلہ کرنے کا مجاز بھی اللہ ہی ہے ‘ کیونکہ یہ اللہ ہی ہے جو بندوں کی حقیقت سے باخبر ہے ۔ کسی کے راہ راست پر ہونے اور گمراہ ہونے کا فیصلہ بھی وہی کرسکتا ہے ۔

(آیت) ” إِنَّ رَبَّکَ ہُوَ أَعْلَمُ مَن یَضِلُّ عَن سَبِیْلِہِ وَہُوَ أَعْلَمُ بِالْمُہْتَدِیْنَ (117)

” اور حقیقت تمہارا رب زیادہ بہتر جانتا ہے کہ کون اس کے راستے سے ہٹا ہوا ہے اور کون سیدھی راہ پر ہے ۔ “

لوگوں کے تصورات و افکار ‘ ان کی اقدار اور پیمانوں ‘ ان کے طرز عمل اور سرگرمیوں کے بارے میں حسن وقبح کا فیصلہ کرنے کے لئے لازما کوئی معیار ہونا چاہئے جس کے مطابق یہ فیصلہ کیا جاسکے کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے ۔ یہ معیار لوگوں کی خواہشات نفسانیہ اور ان کی بدلتی ہوئی اصطلاحات اور رسم و رواج کو نہیں ہونا چاہیے اس لئے کہ یہ دونوں امور متغیر ہیں ۔ اس لئے ایک ایسے منبع اور ماخذ کا تعین ہونا چاہیے جہاں سے لوگ اپنے پیمانون اور خود لوگوں کے بارے میں فیصلے کرسکیں ۔

یہاں اللہ تعالیٰ یہ قرار دیتے ہیں کہ یہ فیصلہ اللہ نے کرنا ہے کہ یہاں اچھا کیا ہے اور برا کیا ہے اور یہ حق صرف اللہ ہی کو ہے ۔ وہی فیصلہ کرسکتا ہے اور وہی جانتا ہے کہ ہدایت کیا ہے اور ضلالت کیا ہے ہادی کون ہے اور ضال کون ہے ؟

ہم کسی سوسائٹی کو یہ اختیار نہیں دے سکتے کہ وہ اپنے بدلتے ہوئے حالات اور اصطلاحات کے مطابق حسن وقبح کا فیصلہ کرے اس لئے کہ ہر سوسائٹی کے عناصر ترکیبی ‘ اس کی شکل و صورت اور اس کی مادی ضروریات بدلتی رہتی ہیں ۔ اگر یہ حق سوسائٹی کو دے دیا جائے تو حسن وقبح کے پیمانے بھی مستقل نہ رہیں گے ۔ پھر ایک زرعی معاشرے کی اخلاقی اقدار اور ہوں گیی اور ایک صنعتی معاشرے کی اقدار اور ہوں گی ۔ سرمایہ دارانہ بور ژدا معاشرے کی اقدار اور ہوں گی اور اشتراکی اور کمیونسٹ معاشرے کی اقدار اور ہوں گی اور پھر ان معاشروں کی اقدار کے مطابق لوگوں کے حسن وقبح کے اصول مختلف ہوں گے ۔

اسلام اس بات کو اچھی طرح جانتا ہے ‘ اس لئے ایسی مستقل ذاتی اقدار وضع کرتا ہے جو اللہ کی طرف سے مستقلا دی گئی ہیں ۔ معاشرے اور سوسائٹیاں جس قدر بدل جائیں ‘ ترقی یافتہ ہوں یا پسماندہ ۔ جو ساسوئٹیاں ان اصولوں کو ترک کردیں اسلامی نظام ان کے لئے ایک مخصوص اصطلاح استعمال کرتا ہے ۔ اسلام انہیں جاہلی معاشرے کے نام سے پکارتا ہے ۔ یہ مشرک معاشرہ ہوتا ہے ‘ اس لئے کہ یہ معاشرہ اللہ کے سوا دوسرے خداؤں کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ ان کے لئے حسن قبح کے پیمانے مقرر کریں ۔ ان کو تصور حیات ‘ اصول اخلاق اور نظام حیات دیں ۔ اسلامی نظام صرف ایک ہی تقسیم روا رکھتا ہے ۔ اس کے نزدیک ایک معاشرہ یا تو اسلامی معاشرہ ہے یا جاہلی معاشرہ ۔ کوئی تیسری قسم اس کے نزدیک نہیں ہے ۔ آگے جاہلی معاشرے کی اشکال اور صورتیں پھر مختلف ہو سکتی ہیں۔

اس طویل تمہید کے بعد اب اسلامی نظام میں ذبیحوں کے اصولی مسئلے کو لیا جاتا ہے ۔ اس مسئلے کو اسی اساسی اصول کے مطابق لیا جاتا ہے کہ اسلام میں حسن وقبح اور حلال و حرام کے تعین کا اختیار صرف اللہ کو ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ سابقہ آیات میں اس اصول پر تفصیلی گفتگو ہوئی :

(آیت) ” فَکُلُواْ مِمَّا ذُکِرَ اسْمُ اللّہِ عَلَیْْہِ إِن کُنتُمْ بِآیَاتِہِ مُؤْمِنِیْنَ (118) وَمَا لَکُمْ أَلاَّ تَأْکُلُواْ مِمَّا ذُکِرَ اسْمُ اللّہِ عَلَیْْہِ وَقَدْ فَصَّلَ لَکُم مَّا حَرَّمَ عَلَیْْکُمْ إِلاَّ مَا اضْطُرِرْتُمْ إِلَیْْہِ وَإِنَّ کَثِیْراً لَّیُضِلُّونَ بِأَہْوَائِہِم بِغَیْْرِ عِلْمٍ إِنَّ رَبَّکَ ہُوَ أَعْلَمُ بِالْمُعْتَدِیْنَ (119) وَذَرُواْ ظَاہِرَ الإِثْمِ وَبَاطِنَہُ إِنَّ الَّذِیْنَ یَکْسِبُونَ الإِثْمَ سَیُجْزَوْنَ بِمَا کَانُواْ یَقْتَرِفُونَ (120) وَلاَ تَأْکُلُواْ مِمَّا لَمْ یُذْکَرِ اسْمُ اللّہِ عَلَیْْہِ وَإِنَّہُ لَفِسْقٌ وَإِنَّ الشَّیَاطِیْنَ لَیُوحُونَ إِلَی أَوْلِیَآئِہِمْ لِیُجَادِلُوکُمْ وَإِنْ أَطَعْتُمُوہُمْ إِنَّکُمْ لَمُشْرِکُونَ (121)

(پھر اگر تم اللہ کی آیات پر ایمان رکھتے ہو ‘ تو جس جانور پر اللہ کا نام لیا گیا ہو ‘ اس کا گوشت کھاؤ ۔ آخر کیا وجہ ہے کہ تم وہ چیز نہ کھاؤ جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو ‘ حالانکہ جن چیزوں کا استعمال حالت اضطرار کے سوا دوسری تمام حالتوں میں اللہ نے حرام کردیا ہے ان کی تفصیل وہ تمہیں بتا چکا ہے ۔ بکثرت لوگوں کا حال یہ ہے کہ علم کے بغیر محض اپنی خواہشات کی بنا پر گمراہ کن باتیں کرتے ہیں ‘ ان حد سے گزرنے والوں کو تمہارا رب خوب جانتا ہے ۔ تم کھلے گناہوں سے بھی بچو اور چھپے گناہوں سے بھی ۔ جو لوگ گناہ کا اکتساب کرتے ہیں وہ اپنی اس کمائی کا بدلہ پاکر رہیں گے ۔ اور جس جانور کو اللہ کا نام لے کر ذبح نہ کیا گیا ہو ‘ اس کا گوشت نہ کھاؤ ‘ ایسا کرنا فسق ہے ۔ شیاطین اپنے ساتھیوں کے دلوں میں شکوک و اعتراضات القا کرتے ہیں تاکہ وہ تم سے جھگڑا کریں ۔ لیکن اگر تم نے ان کی اطاعت قبول کرلی تو یقینا تم مشرک ہو گے ۔ (6 : 118۔ 121)

حکم یہ ہے کہ جس ذبیحہ پر اللہ کا نام لیا جائے اسے کھاؤ ۔ اللہ کا نام لینا اس لئے ضروری قرار دیا گیا کہ لوگوں کے نظریے اور ان کے عقیدے کی سمت کا تعین کردیا جائے ‘ تاکہ انکا ایمان اور ان کی اطاعت ان احکام کے لئے مخصوص ہو جو اللہ کی طرف سے صادر ہوتے ہیں ۔

(آیت) ” فَکُلُواْ مِمَّا ذُکِرَ اسْمُ اللّہِ عَلَیْْہِ إِن کُنتُمْ بِآیَاتِہِ مُؤْمِنِیْنَ (118)

” پھر اگر تم اللہ کی آیات پر ایمان رکھتے ہو ‘ تو جس جانور پر اللہ کا نام لیا گیا ہو ‘ اس کا گوشت کھاؤ۔ “

اور اس کے بعد ان سے پوچھا جاتا ہے کہ آخر وہ کیا چیز ہے جو تمہارے لئے ایسے جانوروں کے گوشت کو کھانے سے روک رہی ہے جبکہ ان پر اللہ کا نام لیا گیا ہے ‘ اور ان کو اللہ نے حلال قرار دیا ہے ۔ حالانکہ اللہ نے اضطراری حالت میں استثناء کی گنجائش رکھتے ہوئے ان چیزوں کی تفصیلات دے دی ہیں جو حرام ہیں ۔ یوں اللہ تعالیٰ نے حلت اور حرمت کے معاملے میں کسی کو بات کرنے کا کوئی اختیار نہیں دیا ہے ۔ اس لئے کوئی شخص یہ نہیں کرسکتا کہ وہ اپنی مرضی سے بعض چیزوں کو حلال سمجھتے ہوئے کھائے اور بعض کو حرام سمجھتے ہوئے ترک کردے ۔

(آیت) ” وَمَا لَکُمْ أَلاَّ تَأْکُلُواْ مِمَّا ذُکِرَ اسْمُ اللّہِ عَلَیْْہِ وَقَدْ فَصَّلَ لَکُم مَّا حَرَّمَ عَلَیْْکُمْ إِلاَّ مَا اضْطُرِرْتُمْ إِلَیْْہِ (6 : 119)

” آخر کیا وجہ ہے کہ تم وہ چیز نہ کھاؤ جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو ‘ حالانکہ جن چیزوں کا استعمال حالت اضطرار کے سوا دوسری تمام حالتوں میں اللہ نے حرام کردیا ہے “۔

ان کی تفصیل وہ تمہیں بتا چکا ہے ۔ “

اس مسئلے کو وقتی تعلق اس وقت کے معاشرے میں پائے جانے والے ایک معاملے سے ہے ۔ مشرکین مکہ بعض ایسے جانوروں کا گوشت کھاتے تھے جنہیں اللہ نے حرام قرار دے دیا تھا اور بعض ایسے جانور کے گوشت کو حرام قرار یتے ہوئے نہ کھاتے ہیں جو عنداللہ حلال تھے اور وہ یہ سمجھتے تھے کہ یہ اللہ کی شریعت ہے ۔ چناچہ یہاں قرآن مجید اس قصے کا فیصلہ کرتے ہوئے یہ قرار دیتا ہے کہ یہ لوگ اپنی خواہشات سے متاثر ہو کر اور بغیر علم کے قانون سازی کرتے ہیں اور یوں وہ اللہ تعالیٰ کے حق حاکمیت پر دست درازی کرتے ہیں ۔ اس طرح وہ ان حدود کار میں داخل ہوتے ہیں جو اللہ کے لئے مخصوص ہیں حالانکہ وہ اللہ کے بندے اور غلام ہیں ۔

(آیت) ” وَإِنَّ کَثِیْراً لَّیُضِلُّونَ بِأَہْوَائِہِم بِغَیْْرِ عِلْمٍ إِنَّ رَبَّکَ ہُوَ أَعْلَمُ بِالْمُعْتَدِیْنَ (119)

” بکثرت لوگوں کا حال یہ ہے کہ علم کے بغیر محض اپنی خواہشات کی بنا پر گمراہ کن باتیں کرتے ہیں ‘ ان حد سے گزرنے والوں کو تمہارا رب خوب جانتا ہے ۔ “

اس لئے اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ تم ہر قسم کے گناہوں کو ترک کر دو ‘ چاہے ظاہری ہوں یاباطنی ۔ یہ بات بھی ان گناہوں ہی میں سے ہے کہ کوئی بغیر علم کے لوگوں کو گمرہ کرنے کا سبب بنے ۔ اور یہ کام وہ محض اپنی خواہشات کی تسکین کے لئے کرے اور پھر اپنی اس سرگرمی کو دینی اور شرعی رنگ بھی دے اگرچہ شریعت کے ساتھ اسے کوئی نسبت بھی نہ ہو بلکہ یہ اسلامی شریعت پر محض افتراء ہو۔ چناچہ اللہ تعالیٰ انہیں اس قسم کی افتراء پردازی کے انجام بد سے ڈراتا ہے ۔

(آیت) ” وَذَرُواْ ظَاہِرَ الإِثْمِ وَبَاطِنَہُ إِنَّ الَّذِیْنَ یَکْسِبُونَ الإِثْمَ سَیُجْزَوْنَ بِمَا کَانُواْ یَقْتَرِفُونَ (120)

” تم کھلے گناہوں سے بھی بچو اور چھپے گناہوں سے بھی ۔ جو لوگ گناہ کا اکتساب کرتے ہیں وہ اپنی اس کمائی کا بدلہ پاکر رہیں گے ۔ “

اس کے بعد حکم دیا جاتا ہے کہ جن جانوروں پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو ‘ ان کا گوشت کھانے سے باز رہو ۔ یہ لوگ بعض جانوروں کو ذبح کرتے وقت ان پر اللہ کے سوا اور الہوں کے نام لیتے تھے ۔ یا وہ انہیں قماربازی کے لئے ذبح کرتے تھے اور پھر پانسوں کے ذریعے انہیں تقسیم کرتے تھے ۔ بعض مردار جانوروں کے گوشت کے استعمال کے معاملے میں وہ مسلمانوں سے جھگڑتے تھے ۔ وہ کہتے تھے اگرچہ ایسے مردہ جانروں پر اللہ کا نام نہیں لیا گیا لیکن اللہ نے خود انہیں ذبح کردیا ہے ۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ مسلمان اپنے ہاتھ سے ذبح کئے ہوئے جانوروں کا گوشت تو کھاتے ہیں لیکن اللہ کے ذبح کئے ہوئے جانوروں کا گوشت وہ نہیں کھاتے ۔ یہ وہ تصور اور استدلال ہے جس کی کمزوری بالکل واضح ہے اور یہ تصور تمام جاہلیتوں کے اندر پایا جاتا رہا ہے ۔ یہ تصور مشرکین کو ان کے وہ شیاطین دیتے تھے جو جنوں اور انسانوں میں سے انکے ساتھ لگے ہوئے تھے تاکہ وہ ان کے بودے تصورات اور دلائل کے ذریعے مسلمانوں کے ساتھ مجادلہ کریں ۔ ان باتوں کی تفصیلات ان آیات میں دی گئی ہیں ۔

(آیت) ” وَلاَ تَأْکُلُواْ مِمَّا لَمْ یُذْکَرِ اسْمُ اللّہِ عَلَیْْہِ وَإِنَّہُ لَفِسْقٌ وَإِنَّ الشَّیَاطِیْنَ لَیُوحُونَ إِلَی أَوْلِیَآئِہِمْ لِیُجَادِلُوکُمْ وَإِنْ أَطَعْتُمُوہُمْ إِنَّکُمْ لَمُشْرِکُونَ (121)

” اور جس جانور کو اللہ کا نام لے کر ذبح نہ کیا گیا ہو ‘ اس کا گوشت نہ کھاؤ ‘ ایسا کرنا فسق ہے ۔ شیاطین اپنے ساتھیوں کے دلوں میں شکوک و اعتراضات القا کرتے ہیں تاکہ وہ تم سے جھگڑا کریں ۔ لیکن اگر تم نے ان کی اطاعت قبول کرلی تو یقینا تم مشرک ہو ۔ “

اس آخری فیصلہ کے سامنے کھڑے ہو کر ذرا غور کیجئے ۔ یہ فیصلہ کس قدر دو ٹوک اور صریح ہے ۔ اس میں کہا گیا ہے کہ حاکم صرف اللہ ہے ‘ اس لئے مطاع بھی وہی ہوگا اور یہ اس دین کا بنیادی اصول ہے ۔ یہ آیت فیصلہ کردیتی ہے کہ زندگی کے مسائل کے کسی ایک جزئیہ میں بھی اللہ کے سوا کسی اور کی اطاعت کرنا جبکہ یہ اطاعت اللہ کی شریعت اور اس کے اصولوں کی طرف منسوب نہ ہو ‘ کھلا شرک ہے اور اس کی وجہ سے ایک مسلمان دائرہ اسلام سے خارج ہو کر دائرہ کفر میں داخل ہوجاتا ہے ۔ علامہ ابن کثیر فرماتے ہیں : ” اللہ تعالیٰ کا یہ کہنا کہ

(آیت) ” وَإِنْ أَطَعْتُمُوہُمْ إِنَّکُمْ لَمُشْرِکُونَ (121)

” اگر تم نے ان کی اطاعت قبول کرلی تو یقینا تم مشرک ہو ۔ “

یعنی جہاں تم نے امر الہی اور شریعت الہیہ کو ترک کردیا اور دوسروں کے اوامر اور احکام کو ان پر ترجیح دے دی تو یہ صریح شرک ہوگا ۔ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

(آیت) ” اتخذوا اخبارھم ورھبانھم اربابا من دون اللہ “۔ انہوں نے اپنے احبار اور رہبان کو اللہ کے سوا رب بنایا ہے ۔ “

اس آیت کی تفسیر میں ترمذی نے ایک روایت نقل کی ہے۔ وہ حضرت عدی ؓ ابن حاتم سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے پوچھا رسول اللہ ﷺ ! انہوں نے تو احبارو رہبان کی بندگی نہیں کی ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” ہاں “ بالکل انہوں نے کی ہے ۔ انہوں نے ان کے لئے حرام کو حلال کردیا اور حلال کو حرام اور یہ لوگ ان کی اطاعت کرتے ہیں تو یہ ان لوگوں کی جانب سے احبارورہبان کی عبادت ہے ۔ اسی طرح علامہ ابن کثیر نے حضرت عدی ؓ سے روایت کی ہے کہ اس آیت

(آیت) ” اتخذوا اخبارھم ورھبانھم اربابا من دون اللہ “۔ کا مفہوم یہ ہے کہ انہوں نے لوگوں سے نصیحت وہدایت طلب کی اور اللہ کی کتاب کو پس پشت ڈال دیا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا تھا ۔

(آیت) ” وما امروا الا لیعبدوا الھا واحد “۔

” انکو حکم یہ دیا گیا تھا کہ وہ صرف الہ واحد کی بندگی کریں “۔ یعنی اس کی بندگی کریں جس نے اگر کسی چیز کو حرام قرار دے دیا تو وہ حرام ہوجاتی ہے اور کسی چیز کو حلال قرار دیا تو وہ حلال ہوجاتی ہے ۔ جو قانون بنایا وہ قابل اتباع ہوتا ہے جو فیصلہ وہ کرتا ہے وہ نافذ ہوجاتا ہے ۔

یہ ہیں اقوال حضرت ابن کثیر اور سدی کے ۔ یہ دونوں حضرات نہایت ہی دو ٹوک الفاظ میں فیصلہ کرتے ہیں اور بات کو بالکل کھول کر بیان کرتے ہیں اور یہ اس لئے کہ اس معاملے میں قرآن کی بات بھی نہایت ہی واضح اور دوٹوک ہے پھر اس بات کو حضرت نبی کریم ﷺ نے خود تشریح کرکے واضح کردیا ہے کہ جو شخص بھی معاملات زندگی کے کسی بھی جزئیہ میں اللہ کی بنائی ہوئی شریعت کے مقابلے میں لوگوں کی بنائی ہوئی شریعت پر چلتا ہے وہ مشرک ہے اگرچہ ایسا شخص اپنی اصلیت کے اعتبار سے مسلم ہو کیونکہ اس فعل کی وجہ سے وہ اسلام سے خارج ہو کر مشرکوں کی صف میں کھڑا ہوجاتا ہے ۔ اگرچہ زبان کے ساتھ وہ بار بار ” اشھد “ پڑھتا رہے جبکہ عملا وہ غیر اللہ کا مطیع فرمان اور شاگرد ہو ۔

آج جب ہم اس کرہ ارض پر اس زاوے سے نظر ڈالتے ہیں اور پھر اسے ہم ان آیات کی ان تصریحات کی روشنی میں دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس پر شرک اور جاہلیت کا مکمل کنٹرول ہے ۔ الا ماشاء اللہ تو ہم اس کرہ ارض کے مالکان اقتدار کے اس عمل پر اعراض کرتے ہیں جنہوں نے خدائی خصوصیات کا دعوی کردیا ہے کہ ان کا کوئی قانون اور کوئی حکم قابل قبول نہیں ہے ۔ الا یہ کہ کوئی نہایت ہی مجبور ہو ۔

آیت زیر بحث (ولا تاکلوا) میں ذیبحوں کے بارے میں جو ہدایت دی گئی ہیں ان میں سے فقہی اعتبار سے حلال و حرام کی تفصیلات علامہ ابن کثیر نے اس طرح دی ہیں ۔ فرماتے ہیں کہ اس مسء لہ میں ائمہ فقہ کے تین اقوال ہیں۔

بعض فقہاء کہتے ہیں کہ ایسے ذیبحے کا گوشت کھانا حرام ہے چاہے ذبیحے پر اللہ نام عمدا نہ لیا گیا ہو یا سہوا ۔

حضرت ابن عمر ‘ نافع ‘ عامر شعبی اور محمد ابن سیرین سے بھی ایسے ہی مروی ہے ‘ امام مالک سے بھی ایک روایت ایسی ہی ہے ۔ امام احمد ابن حنبل سے بھی ایک روایت ایسی ہی ہے اور متقدمین ومتاخرین میں سے ایک گروہ نے اس کی تائید کی ہے ۔

ابوثور ‘ داؤد ظاہری اور ابو الفتوح محمد ابن علی طائی جو متاخرین شافعیہ میں ہیں ‘ انہوں نے اپنی کتاب اربعیں میں بھی یہی رائے اختیار کی ہے اور انہوں نے اپنے مذہب پر اسی آیت سے استدلال کیا ہے ۔ نیز اس گروہ نے شکار کے بارے میں وارد دوسری آیت سے بھی استدلال کیا ہے ۔

(آیت) ” ولا تاکلوا ممالم یذکر اسم اللہ علیہ) پس اس شکار سے کھاؤ جسے وہ (کتے) پکڑ کر تمہارے لئے رک لیں ‘ اور اس پر اللہ کا نام لو۔ “ ان کا استدلال یہ بھی ہے کہ اس آیت میں اس کے لئے انہ لفسق کا تاکیدی لفظ آیا ہے ۔ انہ کی ضمیر کا مرجع اکل ہے ۔ بعض مفسرین نے غیر اللہ کے نام پر ذبح کرنے کی طرف عائد کیا ہے ۔ نیز یہ رائے رکھنے والے حضرات ان احادیث سے بھی استدلال کرتے ہیں جو شکار اور ذبیحوں پر اللہ کا نام لینے کے بارے میں وارد ہیں مثلا عدی ؓ ابن حاتم اور ابو ثعلبہ کی احادیث ۔ ” جب تم نے اپنے سدھائے ہوئے کتے کو چھوڑا اور اس پر تم نے اللہ کا نام لیا تو جب تک وہ کتا تمہارے لئے روکے رکھے تم کھاؤ۔ “ یہ دونوں احادیث صحیحین نے روایت کی ہیں ۔ نیز رافع ابن خدیج کی حدیث سے بھی یہ گروہ استدلال کرتا ہے ۔ ” جس سے خون نکلا اور اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو تو اسے کھاؤ “ یہ حدیث بھی صحیحین نے روایت کی ہے ۔ اس مسئلے میں دوسرا مذہب یہ ہے کہ ذبیحوں پر اللہ کا نام لینا شرط اور واجب نہیں ہے ۔ بلکہ یہ مستحب ہے ۔ اگر کوئی عمدا یانسیان کی وجہ سے ذبح کے وقت اللہ کا نام نہ لے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ یہ امام شافعی کا مذہب ہے ۔ اور آپ نے تمام رفقاء بھی اسی طرف گئے ہیں امام احمد ابن حنبل سے بھی ایک روایت اسی مضمون کی ہے ۔ امام مالک سے بھی ایک روایت اس کے مطابق ہے ۔ آپ کے رفقاء میں سے اشہب ابن عبدالعزیز نے اس کی تصریح کی ہے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ ‘ ابوہریرہ ؓ ‘ عطاء ابن ابو رباح ؓ سے بھی ایسی ہی روایات نقل کی ہیں ‘ واللہ اعلم ۔ اب رہیں وہ آیات و احادیث تو ان کی تاویل امام شافعی نے یوں کی ہے کہ آیت

(آیت) ” وَلاَ تَأْکُلُواْ مِمَّا لَمْ یُذْکَرِ اسْمُ اللّہِ عَلَیْْہ “۔ ان ذبیحوں کے بارے میں ہے جن پر بتوں کا نام لیا گیا ہو۔ مثلا

ّ (اوفسقا اھل لغیر اللہ بہ) میں اس کی تصریح ہے ۔ اسی طرح ابن جریج کہتے ہیں کہ آیت (الاتاکلوا ‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ) میں ممانعت ان ذبیحوں سے ہے جو قریش بتوں کے اوپر ذبح کرتے تھے ۔ نیز ان ذبیحوں کے بارے میں جو مجوسی ذبح کرتے تھے امام شافعی نے جو مسلک اختیار کیا ہے یہ قوی تر ہے ۔

ابن ابو حاتم نے اپنی سند کے ساتھ حضرت ابن عباس ؓ سے یہ نقل کیا ہے کہ

(آیت) ” وَلاَ تَأْکُلُواْ مِمَّا لَمْ یُذْکَرِ اسْمُ اللّہِ عَلَیْْہ “۔ مردار کے بارے میں ہے ۔ اس کی تائید میں امام ابو داؤد نے اپنی مرسل احادیث میں ثور ابن یزید کی حدیث نقل کی ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” مسلم کا ذبیحہ حلال ہے ‘ اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو یا نہ لیا گیا ہو۔ اس لئے کہ اگر وہ نام لیتا تو صرف اللہ ہی کا لیتا ۔ “ اور اس مرسل روایت کی تائید دارقطنی کی روایت سے ہوتی ہے جبکہ ایک مسلمان ذبح کرے اور اس ذبح کے وقت اللہ کا نام نہ لے تو چاہیے کہ اس کا گوشت کھایا جائے ‘ اس لئے کہ مسلمان کے اندر اللہ کے ناموں میں سے کوئی نام ہوتا ہی ہے ۔ “

تیسرا مذہب یہ ہے کہ اگر کوئی بھول کر اللہ کا نام نہ لے تو کوئی حرج نہیں ہے اور اگر عمدا ایسا کرے تو کھانا جائز نہ ہوگا ۔ امام مالک (رح) اور امام احمد ابن حنبل (رح) کا یہ مشہور مذہب ہے اور امام ابوحنیفہ (رح) اور ان کے ساتھی بھی اسی طرف گئے ہیں ۔

اسحاق ابن راہویہ بھی اسی کے قائل ہیں ۔ حضرت علی ‘ ابن عباس ‘ سعید ابن مسیب ‘ عطاء طاؤس ‘ حسن بصری ابو مالک ‘ عبدالرحمن ابن ابولیلی ‘ جعفر ابن محمد اور ربیعہ ابن عبدالرحمن سے بھی ایسا ہی منقول ہے ۔

ابن جریر کہتے ہیں کہ اہل علم نے اس آیت کے بارے میں اختلاف کیا ہے کہ اس آیت کا کوئی حکم منسوخ ہوا ہے یا نہیں ۔ بعض نے یہ کہا ہے کہ یہ اپنے مفہوم میں محکم آیت ہے اور اس کا کوئی حصہ منسوخ نہیں ہے ۔ مجاہد اسی کے قائل ہیں۔ حسن بصری ‘ (رح) عکرمہ (رح) کا یہ قول ہے کہ

(آیت) ” فَکُلُواْ مِمَّا ذُکِرَ اسْمُ اللّہِ عَلَیْْہِ إِن کُنتُمْ بِآیَاتِہِ مُؤْمِنِیْنَ (118)

دوسری جگہ اللہ فرماتے ہیں ۔

(آیت) ” وَلاَ تَأْکُلُواْ مِمَّا لَمْ یُذْکَرِ اسْمُ اللّہِ عَلَیْْہ وانہ لفسق “۔ اس طرح اس آیت نے پہلی کو منسوخ کردیا ۔ پھر اس سے اہل کتاب کا کھانا مستثنی کیا گیا ۔

(آیت) ” وطعام الذین اوتوالکتاب حل لکم وطعامکم حل لھم) ابن ابو حاتم کہتے ہیں کہ عباس ابن الولید کے سامنے مکحول کی یہ روایت پڑھی گئی کہ اللہ نے پہلے یہ آیت نازل فرمائی ۔

(آیت) ” وَلاَ تَأْکُلُواْ مِمَّا لَمْ یُذْکَرِ اسْمُ اللّہِ عَلَیْْہ ) اور اس کے بعد اللہ نے اسے منسوخ کردیا ۔ یوں اس نے اہل اسلام پر رحم فرمایا اور یہ آیت نازل ہوئی ۔

(آیت) ” الیوم احل لکم الطیبت وطعام الذین اوتوا الکتاب حل لکم “۔ یوں اس دوسری آیت نے پہلی کو منسوخ کردیا اور اہل کتاب کا ذبیحہ حلال قرار دیا گیا ۔ اس کے بعد ابن جریر نے کہا : ” کہ حقیقت یہ ہے کہ جن چیزوں پر اللہ نام نہ لیا گیا ہو ۔ ان کی حرمت اور اہل کتاب کے ذبیحوں کی حلت کے احکام میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ ابن جریر کی بات درست ہے ۔ سلف میں سے جن لوگوں نے نسخ کا لفظ استعمال کیا ان کی مراد تخصیص ہے ‘ واللہ اعلم ۔

اس کے بعد اسلام اور کفر کے درمیان ایک مکمل معرکہ سامنے آتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر گاؤں میں بڑے بڑے مجرمین پیدا کئے ہیں اور ان کے دلوں میں کبروغرور کی ایک بڑی مقدار پائی جاتی ہے ۔ یہ اس گاؤں کے بڑے مجرم ہوتے ہیں ۔ یہ لوگ پورے علاقے میں لوگوں کو راہ راست پر آنے سے روکتے ہیں ۔ اس بیانیہ میں واضح طور پر یہ دکھایا جاتا ہے کہ جن لوگوں کو راہ راست پر آنے سے روکتے ہیں ۔ اس بیانیہ میں واضح طور پر یہ دکھایا جاتا ہے کہ جن لوگوں کے دل ایمان کے لئے کھل جاتے ہیں ان کے حالات کیسے ہوتے ہیں ۔ وہ حالات کس طرح کے ہوتے ہیں جن میں لوگوں کے دل اسلام اور قبولیت حق کے لئے تنگ ہوجاتا ہے اور اسلام کا تصور کرتے ہی وہ لوگ تنگی محسوس کرتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ گویا ان کی سانس رک گئی ہے ۔ یوں یہ بیانیہ موضوع سخن یعنی اسلام میں حلال و حرام کے موضوع کے ساتھ اصولی طور پر منسلک ہوجاتا ہے ۔ یعنی اصول اور فروع کی نسبت قائم ہوجاتی ہے اور یہ اشارہ دیا جاتا ہے کہ ذبیحوں کی حلت اور حرمت کا مسئلہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں ہے ۔ بلکہ یہ نہایت ہی اصولی مسئلہ ہے ۔