دنیا میں جو کچھ ہے وہ سب ہمارے لیے ’’مالِ غیر‘‘ ہے۔ کیوں کہ سب کا سب خدا کا ہے۔ اس کو اپنے لیے جائز کرنے کی واحد صورت یہ ہے کہ اس کو خدا کے بتائے ہوئے طریقے سے حاصل کیا جائے اور اس کو خدا کے بتائے ہوئے طریقہ سے استعمال کیا جائے ۔ یہی معاملہ جانوروں کا بھی ہے۔
جانورہمارے لیے قیمتی خوراک ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ ان کو خوراک بنانے کا حق ہم کو کیسے ملا۔ جانور کو خدا بناتا ہے اور وہی اس کو پرورش کرکے تیار کرتا ہے۔ پھر ہمارے لیے کیسے جائز ہوا کہ ہم اس کو اپنی خوراک بنائیں۔ ذبح کے وقت اللہ کا نام لینا اسی سوال کا جواب ہے۔ اللہ کا نام لینا کوئی لفظی رسم نہیں۔ یہ دراصل جانور کے اوپر خدا کی مالکانہ حیثیت کو تسلیم کرنا اور اس کے عطیہ پر خدا کا شکر ادا کرنا ہے۔ ذبح کے وقت اللہ کا نام لینا اسی اعتراف وتشکر کی ایک علامت ہے اور یہی اعتراف وتشکر وہ ’’قیمت‘‘ ہے جس کو ادا کرنے سے مالک کے نزدیک اس کا ایک جانور ہمارے لیے حلال ہوجاتا ہے۔ تاہم جس کو اتفاقی مجبوری پیش آجائے اس کو اس پابندی سے آزاد کردیاگیا ہے۔
جب آدمی حرام وحلال اور جائز وناجائز میں خدا کا حکم چھوڑتا ہے تو اس کے بعد توہمات اس کی جگہ لے لیتے ہیں۔ لوگ توہماتی خیالات کی بنا پر اشیاء کے بارے میں طرح طرح کی رائیں قائم کرلیتے ہیں۔ ان توہمات کے پیچھے کچھ خود ساختہ فلسفے ہوتے ہیں اور ان کی بنیاد پر ان کے کچھ ظواہر قائم ہوتے ہیں۔ جو لوگ اللہ کے فرماں بردار بننا چاہیں ان کے لیے ضروری ہوتاہے کہ ان توہمات کو فکری اور عملی دونوں اعتبار سے مکمل طورپر چھوڑ دیں۔
کھانے پینے اور دوسرے امور میں ہر قوم کا ایک رواجی دین بن جاتا ہے۔ اس رواجی دین کے بارے میں لوگوں کے جذبات بہت شدید ہوتے ہیں۔ کیوں کہ اس کے حق میں اسلاف اور بزرگوں کی تصدیقات شامل رہتی ہیں۔ اس سے ہٹنا بزرگوں کے دین سے ہٹنے کے ہم معنی بن جاتا ہے۔ اس لیے جب حق کی دعوت اس رواجی دین سے ٹکراتی ہے تو حق کی دعوت کے خلاف طرح طرح کے اعتراضات كيے جاتے ہیں۔ وقت کے بڑے ایسی خوش کن باتیں نکالتے ہیں جن سے وہ اپنے عوام کو مطمئن کرسکیں کہ تمھارا رواجی دین صحیح اور یہ ’’نیا دین‘‘ بالکل باطل ہے۔ مگر اللہ ہر چیز سے باخبر ہے۔ قیامت میں جب وہ حقیقتوں کو کھولے گا تو ہر آدمی دیکھ لے گا کہ وہ حقیقت کی زمین پر کھڑا تھا یا توہمات کی زمین پر۔