قرآن میں ذبیحہ کے احکام اترے اور یہ کہا گیا کہ مردہ جانور نہ کھاؤ، ذبح کیا ہوا کھاؤ تو کچھ لوگوں نے کہا مسلمانوں کا مذہب بھی عجیب ہے۔ وہ اپنے ہاتھ کا مارا ہوا جانور حلال سمجھتے ہیں اور جس کو اللہ نے مارا ہوا اس کو حرام بتاتے ہیں۔اس جملہ میں لفظی تک بندی کے سوا اور کوئی دلیل نہیں ہے۔ مگر بہت سے لوگ اس کو سن کر دھوکے میں آگئے اور اسلام کو شبہ کی نظر سے دیکھنے لگے۔ ایسا ہی ہمیشہ ہوتا ہے۔ ہر زمانہ میں ایسے لوگ کم ہوتے ہیں جو باتوںکو ان کی اصل حقیقت کے اعتبار سے سمجھتے ہوں۔ بیشتر لوگ الفاظ کے گورکھ دھندے میں گم رہتے ہیں۔ وہ خیالی باتوں کو حقیقی سمجھ لیتے ہیں، صرف اس لیے کہ ان کو خوبصورت الفاظ میں بیان کردیا گیا ہے۔
مگر یہ دنیا ایسی دنیا ہے جہاں تمام بنیادی حقیقتوں کے بارے میں خدا کے واضح بیانات آچکے ہیں۔ اس لیے یہاں کسی کے لیے اس قسم کی بے راہی میں پڑناقابل معافی نہیں ہوسکتا۔ خدا کا کلام ایک کھلی ہوئی کسوٹی ہے جس پر جانچ کر ہر آدمی معلوم کرسکتا ہے کہ اس کی بات محض ایک لفظی شعبدہ ہے یا کوئی واقعی حقیقت ہے۔ خدا نے ماضی، حال اور مستقبل کے تمام ضروری امور کی بابت سچا بیان دے دیا ہے۔ اس نے انسانی تعلقات کے تمام پہلوؤں کے بارے میں کامل انصاف کی راہ بتا دی ہے۔ آدمی اگر فی الواقع سنجیدہ ہو تو ا س کے لیے یہ جاننا کچھ بھی مشکل نہیں کہ حق کیا ہے اور نا حق کیا۔ اب اس کے بعد شبہ میں وہی پڑے گا جس کا حال یہ ہو کہ اس کی سوچ خدا کے کلام کے سوا دوسری چیزوں کے زیر اثر کام کرتی ہو۔ جو شخص اپنی سوچ کو خدائی حقیقتوں کے موافق بنا لے اس کے لیے یہاں فکری بے راہ روی کا کوئی امکان نہیں۔
اس خدائی وضاحت کے بعد بھی اگر آدمی بھٹکتا ہے تو خدا کو اس کا حال اچھی طرح معلوم ہے۔ وہ خوب جانتا ہے کہ وہ کون ہے جس نے اپنی بڑائی قائم رکھنے کی خاطر اپنے سے باہر ظاہر ہونے والی سچائی کو کوئی اہمیت نہ دی۔ کون ہے جس کے تعصب نے اس کو اس قابل نہ رکھا کہ وہ بات کو سمجھ سکے۔ کس نے سستی نمائش میں اپنی رغبت کی وجہ سے سچائی کی آواز پر دھیان نہیں دیا۔ کون ہے جو حسد کی نفسیات میں مبتلا ہونے کی وجہ سے حق سے نا آشنا رہا۔