You are reading a tafsir for the group of verses 6:112 to 6:113
وَكَذٰلِكَ
جَعَلْنَا
لِكُلِّ
نَبِیٍّ
عَدُوًّا
شَیٰطِیْنَ
الْاِنْسِ
وَالْجِنِّ
یُوْحِیْ
بَعْضُهُمْ
اِلٰی
بَعْضٍ
زُخْرُفَ
الْقَوْلِ
غُرُوْرًا ؕ
وَلَوْ
شَآءَ
رَبُّكَ
مَا
فَعَلُوْهُ
فَذَرْهُمْ
وَمَا
یَفْتَرُوْنَ
۟
وَلِتَصْغٰۤی
اِلَیْهِ
اَفْـِٕدَةُ
الَّذِیْنَ
لَا
یُؤْمِنُوْنَ
بِالْاٰخِرَةِ
وَلِیَرْضَوْهُ
وَلِیَقْتَرِفُوْا
مَا
هُمْ
مُّقْتَرِفُوْنَ
۟
3

(آیت) ” نمبر 112 تا 113۔

یوں ہم نے انسان کو لئے مقدر کردیا ہے کہ جو مشرکین اپنے ایمان کو ایسی باتوں پر موقوف کرتے ہیں جو خوراق عادت ہیں اور اپنے انفس اور اپنے آفاق وماحول میں اس پھیلی ہوئی کائنات کے اندر دلائل ہدایت اور نشانات راہ پر غور نہیں کرتے تو اگر ان کے پاس ہزار مضمرات اور خوارق عادت واقعات آجائیں وہ ایمان نہ لائیں گے ۔

ان لوگوں کی تقدیر کو ہم نے اسی طرح بنا دیا ہے ۔ ہم نے یہ فیصلہ کردیا ہے کہ ہر نبی کے بامقابل انسانوں اور جنوں میں سے کچھ شیاطین اٹھ کھڑے ہوں گے اور ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ان میں سے بعض ‘ بعض دوسروں پر خوش آئندہ باتیں القا کرتے ہیں ۔ اور یہ عوام الناس کو دھوکہ اور فریب دیتے ہیں اور یوں وہ رسولوں کے ساتھ دشمنی کرکے لوگوں کو فریب دیتے ہیں حالانکہ درحقیقت وہ ہدایت کے ساتھ برسرپیکار ہوتے ہیں ۔ یہ بھی ہماری سنت اور ہماری اسکیم ہے کہ ان شیطانوں کی باتوں کی طرف وہ لوگ بڑے شوق سے کان رکھتے ہیں جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور اپنی اس روش پر راضی ہیں اور گناہ کماتے ہیں جس میں وہ مصروف ہیں یعنی رسولوں کی عداوت اور اس کرہ ارض پر فساد اور گمراہی کو پھیلانا ۔

یہ سب واقعات تقدیر الہی کے مطابق وقوع پذیر ہوتے ہیں اس کی مشیت کے مطابق واقع ہوتے ہیں اور اگر اللہ کی مشیت ہوتی تو یہ لوگ ایسا رویہ اختیار نہ کرتے اور واقعات کا رخ بالکل الٹی سمت ہوتا اور اللہ کی تقدیر بالکل دوسری سمت پر چلتی ۔ اس لئے کہ یہ واقعات محض اتفاق کے طور پر واقع نہیں ہوتے اور نہ دنیا میں رونما ہونے والے واقعات خود حضرت انسان کی اپنی طاقت اور قوت سے رونما ہوتے ہیں۔

جب یہ بات طے ہوگئی کہ اس جہان میں حق و باطل کا جو معرکہ برپا ہے اور جس کے فریق ایک جانب سے رسول اور ان کے ساتھ کی سچائی ہے اور دوسرا فریق انسانوں اور جنوں کے شیاطین ہیں جن کے ساتھ باطل ‘ فریب اور دھوکہ ہے اور جب یہ بات بھی طے ہوگئی کہ یہ پوری کشمکش ‘ حق و باطل کی کشمکش ‘ اللہ کی مشیت اور اس کی تقدیر کی اسکیم کے تحت جاری ہے تو ایک مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اس حکمت اور تدبیر پر غور کرے جو اس کشمکش کی تہ میں کار فرما ہے اور اس سے قبل بندہ مومن کو چاہئے کہ وہ ان واقعات کی تہ تک پہنچنے کی سعی کرے ۔

(آیت) ” وَکَذَلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نِبِیٍّ عَدُوّاً شَیَاطِیْنَ الإِنسِ وَالْجِنِّ یُوحِیْ بَعْضُہُمْ إِلَی بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوراً وَلَوْ شَاء رَبُّکَ مَا فَعَلُوہُ فَذَرْہُمْ وَمَا یَفْتَرُونَ (112)

” اور ہم نے تو اسی طرح شیطانوں انسانوں اور شیطان جنوں کو ہر نبی کا دشمن بنایا ہے جو ایک دوسرے پر خوش آئند باتیں دھوکے اور فریب کے طور پر القاء کرتے رہتے ہیں ۔ “

یعنی اپنے ارادے اور تقدیر کے مطابق ہم نے ایسا کیا ہے ۔ ہر نبی کا ہم نے ایک دشمن پیدا کیا ہے ۔ یہ دشمن انسانوں اور جنوں میں سے وہ لوگ ہوتے رہے ہیں جو شیطان تھے ۔ شیطنت کے معنی نافرمانی اور حکم عدولی کے ہیں ۔ شیطنت کا مفہوم ہے مجسمہ شر ہونا ۔ یہ ایسی صفت ہے جس سے انسان بھی متصف ہوتے ہیں اور جن بھی ۔ اگر کوئی مجسمہ شر ہو تو اگر جن ہو تو وہ جن شیطان ہے اور اگر انسان ہو تو وہ انسان شیطان ہے ۔ بعض اوقات اس صفت کے ساتھ ایک حیوان بھی متصف ہوتا ہے جبکہ وہ نافرمان ‘ سرکش اور حملہ آور ہو ‘ اس لئے کہ حدیث میں آیا ہے کہ سیاہ کتا شیطان ہوتا ہے ۔ “

یہ جنی اور انسی شیاطین جن کے بارے میں فیصلہ الہیہ ہے کہ وہ ہر نبی کے دشمن ہوں گے ‘ یہ ایک دوسرے کو چکنی چپڑی باتوں سے دھوکہ دیتے ہیں اور یہ باتیں وہ ایک دوسرے پر القاء کرتے ہیں ۔ وحی کے مفہومات میں سے ایک مفہوم یہ ہے کہ کسی ایک جان سے دوسری جان کی طرف ایک خفیہ اور داخلی اثر منتقل ہو ۔ یا کوئی ایک شخص دوسرے کو دھوکہ دے اور لوگ ایک دوسرے کو سرکشی ‘ نافرمانی اور شرو معصیت کے لئے ابھاریں ۔

ان شیاطن میں سے جو انسان ہیں ان کی سرگرمیاں معروف ومشہور ہیں اور اس کرہ ارض پر ہم ان کو رات ودن دیکھتے ہیں ۔ ان کے نمونے اور ماڈل اور انبیاء کے مقابلے میں ان کی سرگرمیاں معلوم ومعروف ہیں ۔ ہر دور کے انسانوں نے اسے دیکھا ہے اور اب بھی دیکھ رہے ہیں۔

رہے وہ شیطان جن کا تعلق جنات سے ہے تو وہ اللہ کے غیبی امور میں سے ایک امر ہے ۔ ان کے بارے میں ہم صرف اسی قدر جانتے ہیں ۔ جس قدر اللہ اور رسول اللہ نے ہمیں بتایا ہے ۔ اس لئے کہ مفاتیح غیب صرف اللہ کے پاس ہیں اور ان کے بارے میں اللہ ہی جانتا ہے ۔ یہ بات کہ اس کرہ ارض پر معروف ومشہور ذی روح اشیاء کے علاوہ بھی کوئی مخلوق ہے ‘ تو اس بارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں اطلاع دی ہے ۔ اور اس مخلوق کے بارے میں اللہ نے جو اطلاع دی ہے اس کے حدود کے اندر ہم ایمان لاتے ہیں ۔ رہے وہ لوگ جو سائنس کو ڈھال بنا کر اللہ کی ایسی کسی مخلوق کا انکار کرتے ہیں تو ہمیں معلوم نہیں ہے کہ وہ کن دلائل پر انحصار کرتے ہوئے ایسا کرتے ہیں ۔ اس لئے کہ انسانی علم نے کبھی یہ دعوی نہیں کیا کہ انسان نے تمام قسم کے ذی روح اشیاء کو معلوم کرلیا ہے ۔ خصوصا اس چھوٹے سے ستارے کرہ ارض کے اندر بھی جبکہ دوسرے بیشمار اجرام فلکی کے بارے میں سائنس کے پاس ابھی تک ابتدائی معلوم ہی ہیں ‘ صرف یہ فرض کیا جاسکتا ہے کہ اس کرہ ارض پر جس قسم کی مخلوق ہے وہ بعض دوسرے ستاروں میں ممکن ہے یا نہیں ہے ۔ اس سے اس بات کی نفی نہیں ہوتی کہ زندگی کی ایک مختلف قسم اور زندہ اور ذی روح مخلوقات کی کوئی دوسری جنس اور صنف ممکن نہیں ہے جس کا علم سائنس کو نہ ہو ۔ اس لئے کہ سائنس کے عنوان سے کوئی جاہل ہی ہوگا جو اس جہان سے آگے دوسرے جہانوں کا انکار کرتا ہو ۔ ہو سکتا ہے بیشمار ایسی مخلوقات ہوں ۔

اس اصولی عقیدے کے بعد اب یہ بات کہ اس مخلوقات کا مزاج کیا ہوتا ہے اور اس کی طبیعی زندگی کیسی ہوتی ہے تو اس کے بارے میں ہمیں کوئی علم نہیں ہے ۔ اس بارے میں ہم اسی قدر جانتے ہیں جس قدر مخبر صادق حضرت نبی کریم ﷺ نے ہمیں بتایا ہے ۔

ہم اس قدر جانتے ہیں کہ یہ مخلوق ناری مخلوق ہے ۔ یہ مخلوق زمین کے اوپر ‘ زمین کے اندر اور اس سے خارج میں بھی زندہ رہ سکتی ہے ۔ یہ مخلوق نہایت ہی سریع الحرکت ہے ۔ اس مخلوق میں سے بعض لوگ صالح اور مومن ہیں ‘ بعض شیاطین اور سرکش ہیں ۔ وہ انسانوں کو دیکھ سکتے ہیں ۔ اور انسان ان کو نہیں دیکھ سکتے ۔ یعنی ان کی اصلی شکل میں ۔ اور کتنی ہی مخلوق ہے جسے انسان نظر آتا ہے لیکن انسانوں کو وہ نظر نہیں آتی ۔ بعض شیاطین ایسے ہیں جو انسانوں پر مسلط کردیئے گئے ہیں اور وہ انسانوں کو دھوکہ و فریب دے کر گمراہ کرتے ہیں لیکن ان کو اللہ کے خاص بندوں پر کوئی قدرت حاصل نہیں ہوتی جو اللہ کو یاد کرنے والے اور پختہ ایمان کے مالک ہوتے ہیں ۔ شیطان ہر وقت مومن کے ساتھ لگا ہوا ہوتا ہے ۔ جب مومن اللہ کو یاد کرتا ہے تو وہ چھپ جاتا ہے اور بھاگ جاتا ہے اور جب وہ غافل ہوتا ہے تو پھر وسوسے ڈالتا ہے ۔ مومن یاد الہی سے سرشار ہوتا ہے تو اس کے مقابلے میں شیطان کا مکر کمزور ہوجاتا ہے ۔ جنوں کا حشر ونشر بھی اسی طرح ہوگا جس انسانوں کا حشر ونشر ہوگا ۔ اسی طرح ان کا بھی حساب و کتاب ہوگا ۔ اسی طرح جنت کی جزاء اور دوزخ کی سزا کے وہ بھی مستوجب ہوں گے ۔ جنات کا جب فرشتوں سے سامنا ہوتا ہے تو وہ بہت ہی ضعیف نظر آتے ہیں اور ان کے پاس کوئی قوت نہیں ہوتی ۔ اس آیت سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر بنی کے مقابلے میں جنوں اور انسانوں میں سے اپوزیشن کو کھڑا کیا ہے ۔

اللہ کی ذات تو اس بات پر قادر تھی کہ اگر اس کی مشیت کا تقاضا ہوتا تو جن یہ طرز عمل اختیار نہ کرتے ۔ وہ سرکشی نہ کرتے اور مجسمہ شر ہر گز نہ بنتے ۔ وہ انبیاء کے دشمن نہ ہوتے ‘ اہل ایمان کو اذیت نہ دیتے اور عوام الناس کو اللہ کی راہ سے برگشتہ نہ کرتے ۔ اللہ تو اس بات پر قادر تھا کہ انہیں مجبور کر کے ہدایت کی راہ پر ڈال دیتا اور ان کو ہدایت دے دیتا بشرطیکہ وہ ہدایت کی طرف متوجہ ہوتے اور یوں وہ انبیاء کی دشمنی ‘ حق کی مخالفت اور مومنین سے عداوت نہ کرتے ۔ لیکن اللہ نے ان کو ایک حد تک اختیار اور آزادی دے دی اور ان کو یہ اذان دے دیا کہ وہ اللہ کے دوستوں پر دست درازیاں کرتے پھریں ۔ اللہ کی مشیت اور اس کی اسکیم تقدیر کے مطابق تاکہ اس کے دوستوں کی آزمائش ہو سکے اور یہ آزمائش اس کے دشمنوں کے ذریعے ایذا رسانی سے ہو ۔ جس طرح اللہ اپنے دشمنوں کو قوت ‘ اختیار اور آزادی کی ایک محدود ومقدار عطا کر کے آزماتا ہے ۔ دشمن بھی اللہ کے دوستوں کو اسی حد تک اذیت دے سکتے ہیں جس حد کو اللہ نے مقرر کیا ہے ۔

(آیت) ” وَلَوْ شَاء رَبُّکَ مَا فَعَلُوہ (6 : 112) (اور اگر اللہ چاہتا تو وہ ایسا کر ہی نہ سکتے ۔ “ سوال یہ ہے کہ اس ہدایت سے ہمارے لئے کیا نتائج نکلتے ہیں ؟

1۔ یہ کہ جو لوگ انبیاء کے مقابلے میں کھڑے ہوجاتے ہیں اور انبیاء کے متبعین کو اذیت دیتے ہیں وہ شیطان ہوتے ہیں ۔ یہ شیطان انسانوں میں سے بھی ہوتے ہیں اور جنات میں سے بھی ۔ جنوں کے شیطان اور انسانوں کے شیطان دونوں ایک جیسے ہوتے ہیں اور دونوں کے کام کی نوعیت بھی ایک جیسی ہوتی ہے ۔ وہ ایک دوسرے کو دھوکہ اور فریب دیتے ہیں اور گمراہ کرتے ہیں جبکہ سب کی مشترکہ خاصیت یہ ہے کہ وہ سرکش ‘ گمراہ اور اللہ کے دشمن ہوتے ہیں۔

2۔ دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ شیاطین جو انبیاء کے دشمن ہوتے ہیں اور انبیاء کے متعبین کو اذیت دیتے ہیں ۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ ان کے ذریعے اللہ اپنے بندوں اور دوستوں کو آزماتا ہے اور یہ آزمائش بھی گہری حکمت پر مبنی ہوتی ہے ۔ تاکہ لوگوں کو چھان پھٹک کر دیکھ لیا جائے ‘ ان کے دلوں کو صاف کیا جائے ۔ ان کے صبر کا امتحان لیا جائے ‘ ان کی قوت برداشت اور امانت ودیانت کو آزمایا جائے ۔ جب بھی وہ اس آزمائش میں کامیاب ہوگئے یہ آزمائش اور امتحان ختم ہوجاتا ہے اور مخالفین کی مخالفت ختم ہوجاتی ہے ۔ اب دشمن دست درازی کرنے پر قدرت نہیں رکھتے ۔ اس لئے کہ اللہ کی اسکیم تقدیر ختم ہوجاتی ہے اور اب ان کے دشمن کمزور اور ناکام ہوجاتے ہیں ۔ ان کی حالت یہ ہوجاتی ہے کہ وہ اپنے کرتوتوں کا بوجھ اٹھائے اللہ کی طرف لوٹ رہے ہوتے ہیں ۔

(آیت) ” وَلَوْ شَاء رَبُّکَ مَا فَعَلُوہ (6 : 112) (اور اگر اللہ چاہتا تو وہ ایسا کر ہی نہ سکتے ۔ “

3۔ یہ کہ یہ اللہ کی حکمت کا تقاضا تھا کہ وہ شیاطین جن اور شیاطین انس کو یہ مہلت عطا کرے کہ ہو شیطنت کرتے پھریں اس لئے کہ اللہ نے ان شیطانوں کو جو مہلت اور طاقت دی ہوئی ہے اس میں ان کو آزمائے ‘ تاکہ وہ ایک وقت تک اللہ کے دوستوں کو اذیت دیتے رہیں ۔ اس طرح اللہ اپنے دوستوں کو بھی آزماتا ہے تاکہ دیکھا جائے کہ وہ صبر کرتے ہیں ؟ کیا ان کے پاس جو سچائی ہے اس پر وہ ثابت قدم رہتے ہیں جبکہ باطل ان پر زور آور ہو رہا ہے اور دست درازی کر رہا ہو۔ کیا وہ اپنے نفوس کو اللہ کے ہاں پوری طرح فروخت کرتے ہیں اور خوشی اور دیکھ دونوں حالتوں میں ‘ تنگی وترشی میں اور فراوانی اور خوشحالی دونوں میں اللہ عہد پر پختہ رہتے ہیں ؟ ورنہ یہ تو اللہ کے دائرہ قدرت میں تھا کہ وہ اس تمام کھیل کو شروع ہی نہ کرتا ۔

4۔ یہ کہ جن وانس کے تمام شیاطین کی مکاری کی کوئی بھی حقیقت نہیں ہے ‘ یہ تو بہت ہی کمزور مخلوقات ہیں ۔ ان کے پاس انکی کوئی ذات قوت اور طاقت نہیں ہے ۔ وہ تو ان حدود وقیود کے اندر کام کرسکتے ہیں جو ان کے لئے اللہ نے مقرر فرمائی ہیں ۔ وہ مومن جو اس بات کو جانتا ہے اور یقین رکھتا ہے کہ قادر مطلق تو ہی ہے وہی ہے جس نے ان لوگوں کو اجازت دے رکھی ہے ‘ تو اس کی نظروں میں یہ شیاطین ضعیف ہوتے ہیں ۔ اگرچہ بظاہر وہ قہار وجبار نظر آئیں ۔ یہی وجہ ہے کہ حضور کو متوجہ کردیا جاتا ہے ۔ (فذرھم وما یفترون) چھوڑ دیجئے انکو اور ان کی افتراء پردازی کو ۔ میں قادر مطلق ہوں اور ان کے جرائم کی سزا ان کے لئے تیار ہے ۔

5۔ ان اہل ایمان اور شیاطین کے ابتلاء کے علاوہ ایک اور حکمت بھی ہے ۔ یہ عداوت اور یہ گمراہی پھیلانا اور قول وفعل سے یہ وسیع فریب کاری ‘ اللہ نے اس کا اذن اس لئے بھی دے رکھا ہے :

(آیت) ” وَلِتَصْغَی إِلَیْْہِ أَفْئِدَۃُ الَّذِیْنَ لاَ یُؤْمِنُونَ بِالآخِرَۃِ وَلِیَرْضَوْہُ وَلِیَقْتَرِفُواْ مَا ہُم مُّقْتَرِفُونَ (113)

” (یہ سب کچھ ہم انہیں اسی لئے کرنے دے رہیں کہ) جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے انکے دل اس خوشنما دھوکے کیطرف مائل ہوں اور وہ اس سے راضی ہوجائیں اور ان برائیوں کا اکتساب کریں جن کا اکتساب وہ کرنا چاہتے ہیں ۔ “

یعنی جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے وہ ان ہدایات پر کان نہیں دھریں گے اور ان شیطانوں کی وسوسہ اندازی پر توجہ دیں گے ۔ اس لئے کہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں لاتے ان کی تمام صلاحیتیں دنیاوی کاموں میں صرف ہوتی ہیں ۔ ایسے لوگ جب دیکھتے ہیں کہ دنیا میں ہر موڑ پر شیاطین بیٹھے ہوئے ہیں اور نبی کے مخالف ہیں ‘ نبیوں کے متبعین کو رات اور دن اذیت دیتے ہیں اور یہ شیاطین ایک دوسرے کے مدد گار ہیں ‘ ایک دوسرے کی باتوں کو مزین بنادیتے ہیں اور ایک دوسرے کی قولی اور فعلی تائید کرتے ہیں ۔ اس لئے یہ دنیا پرست لوگ شیاطین کے تابع ہوجاتے ہیں اور ان کے اس باطل رعب وداب اور شان و شوکت سے مرعوب ہوجاتے ہیں ۔ حالانکہ ان کا یہ اقتدار اور قوت نہایت ہی کمزور ہوتی ہے ۔ چناچہ یوں وہ بھی برائی اور گناہ کماتے ہیں اور شر ‘ معصیت اور فساد کے پھیلانے میں شریک ہوجاتے ہیں ۔ اس توجہ اور اصغاء کی وجہ سے یہ دنیا پرست شیطانی ہدایات لیتے رہتے ہیں ۔

یہ ایک ایسا معاملہ ہے کہ اس کا یونہی چلنا منصوبہ تقدیر الہیہ کے مطابق تھا ۔ کیونکہ اس عمل کے ذریعے اپنے بندوں کی آزمائش کرکے اللہ ان میں سے کھرے اور کھوٹے کو سامنے لانا چاہتے تھے ۔ نیز اس اسکیم کے مطابق اللہ ہر شخص کو آزادی کے ساتھ ایک راہ پر چلانا چاہتے تھے تاکہ وہ قیامت کے دن اپنے عمل کے ساتھ بالکل مناسب جزا کا مستحق بن جائے ۔

نیز یہ مقصد بھی تھا کہ اس کشمکش میں حق و باطل کے ذریعے دنیا میں اصلاحی کام جاری رہ سکے ۔ حق باطل سے علیحدہ ہو کر ممتاز ہوجائے اور صبر کے صیقل کے ذریعے خیر صاف ستھری ہو کر سامنے آجائے ۔ شیاطین قیامت کے دن اپنے کئے کا پورا پورا بوجھ اٹھائے ہوئے ہوں اور یہ تمام اسکیم اللہ کی مشیت کے مطابق جاری وساری رہے ۔ اسی اسکیم کے مطابق معاملہ اللہ کے دوستوں کا بھی طے ہو اور اسی کے مطابق معاملہ اللہ کے دشمنوں کا بھی طے ہو ۔ یہ ہے اللہ کی اسکیم مشیت اور اللہ جو چاہتا ہے ‘ وہ کرتا ہے ۔

اب ذرا اس منظر پر غور کریں ‘ اس میدان معرکہ میں ایک جانب جن وانس کے تمام شیطان اور ان کے دوست و مددگار کھڑے ہیں اور دوسری جانب انبیائے کرام اور ان کے تمام متبعین کھڑے ہیں اور اس کشمکش میں ایک تیسری اور فیصلہ کن قوت اللہ کی مشیت ‘ اس کا غلبہ اور اس کا اقتدار اعلی ہے ۔ اس منظر کے یہ تین پہلو ہیں اور ہمیں چاہیے کہ ہم ذرا توقف کرکے اس پر گہری نگاہ ڈالیں ۔

یہ ایک ایسا معرکہ ہے کہ اس میں اس کائنات میں شر کی تمام قوتیں جمع ہو رہی ہیں ۔ جن شیطان اور انسان شیطان شانہ بشانہ کھڑے ہیں ۔ یہ اپنے منصوبے کی تکمیل کے لئے اپنی تمام قوتوں کو مجتمع کررہے ہیں اور نہایت ہی تعاون اور ہم آہنگی سے کام کر رہے ہیں ۔ ان لوگوں کا مشترکہ منصوبہ یہ ہے کہ یہ تمام انبیاء ‘ ان کی دعوت اور انکے حامیوں کے دشمن ہیں ۔ اور ان کا ہدف اور منصوبہ متعین ہے ۔ ” یہ ایک دوسرے پر خوش آئند باتیں دھوکے اور فریب کے طور پر القاء کر رہے ہیں ۔ یہ ایک دوسرے کی مدد تمام وسائل کے ساتھ کرتے ہیں جن میں فریب کاری اور دھوکہ بازی کے تمام ذرائع شامل ہیں اور یہ خود آپس میں بھی ایک دوسرے کو گمراہ کرتے ہیں اور جب بھی حق اور سچائی کے مطابق کوئی مجمع جمع ہوتا ہے تو اس مجمع کی اہم خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ یہ ایک دوسرے کو بھی فریب دیتے ہیں ۔ وہ باہم تعاون کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو گمراہ کرتے ہیں اور اس گمراہی میں ایک دوسرے کے معاون بنتے ہیں ۔ یہ لوگ ایک دوسرے کو حق کی کوئی بات نہیں بتاتے ۔ بلکہ وہ ایک دوسرے کے سامنے سچائی کی دشمنی کو ایک بڑا جہاد کہہ کر پیش کرتے ہیں اور یہ عزم کرتے ہیں کہ وہ اس سچائی کے ساتھ طویل عرصے تک لڑیں گے ۔

ان قوتوں کی یہ مکاری مکمل طور پر آزاد اور بےقید بھی نہیں ہے ۔ اس کے اردگرد مشیت الہیہ کا ایک وسیع دائرہ ہے ۔ یہ شیاطین جو سرگرمیاں بھی دکھاتے ہیں وہ اللہ کی مشیت کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے دکھاتے ہیں ۔ یہ مشیت کا دائر اللہ کی تقسیم کا دائرہ ہے ۔ یہیں سے اللہ کے بندوں کی نظروں میں شر کی قوتوں کا یہ اکٹھ اور ان کی پشت پر عالمی تائید پرکاہ کی حیثیت بھی نہیں رکھتی ۔ یہ مقید اور پابزنجیر ہے ۔ یہ اکٹھ اور گٹھ جوڑ بےقید اور آزاد نہیں ہے ۔ اللہ جس طرح چاہتا ہے ‘ کرتا ہے اور یوں نہیں کرتا کہ ہر کوئی ان کے اس جال میں بغیر کسی مدافعت اور مقادمت کے پھنس جائے جس طرح ہمیشہ تمام سرکش شیاطین چاہتے ہیں کہ انہیں بےقید حاکمیت حاصل ہو اور لوگ ان کی غیر مشروط اطاعت کریں اور ان کی مرضی اور خواہش کے اوپر عمل پیرا ہوں ۔ ایسا ہر گز نہیں ہے بلکہ ان سرکشوں کی تمام سرگرمیاں اللہ کی مشیت اور اس کی تقدیر اور ضوابط کے اندر محدود ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ شیطانی قوتیں اللہ کے دوستوں کو کوئی اذیت اور نقصان نہیں پہنچا سکتیں ۔ ہاں اس قدر اذیت یہ ضرور پہنچا دیتے ہیں جس قدر اللہ میاں اپنے دوستوں کی آزمائش کے طور پر اجازت دیں ۔ آخر کار تمام معاملات اللہ کی طرف لوٹ جاتے ہیں ۔

لیکن شر کی قوتوں کا یہ اکٹھ اور ان کا باہم تعاون اہل حق کے لئے بھی ایک نکتہ تفکیر ہے ۔ ان کو غور وفکر کرکے شر کی قوتوں کے اس منصوبے کو سمجھنا چاہیے اور شر کے وسائل کو بھی زیر نظر رکھنا چاہیے ۔ اسی طرح یہ منظر کہ اللہ کی مشیت اور تقدیر ان لوگوں کی تمام سرگرمیوں پر نظر رکھے ہوئے ہے یہ بھی اہل حق کے لئے ایک بشارت ہے ۔ اس سے بھی اہل حق کو یقین اور اطمینان حاصل ہوتا ہے کہ آخر کار وہ کامیاب رہیں گے ۔ اس لئے ان کی نظریں ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی قوت قاہرہ پر مرکوز رہنی چاہئیں جو ہمیشہ نافذ اور کارگر رہتی ہے ۔ اور آخر کار اللہ کا اقتدار اعلی قائم ہوتا ہے ۔ اور حق کو غلبہ نصیب ہوتا ہے ‘ اس لئے اہل حق کو چاہیے کہ وہ اپنے یقین اور عقیدے کو اللہ کی ذات کبریا کے ساتھ وابستہ رکھیں خواہ شیطان چاہے یا نہ چاہے ۔ اور وہ اپنی راہ پر اس طرح گامزن ہوں کہ ان کے اخلاق و اعمال میں سچائی رچی بسی ہو ‘ ان کے دل و دماغ حق سے سرشار ہوں ۔ رہی شیطانوں کی دشمنی اور ان کی مکاری تو اہل حق کو چاہیے کہ ان کو اللہ کی مشیت اور قدرت کے حوالے کردیں جو ہر صورت میں کامیاب اور غالب رہتی ہے ۔ اس لئے کہ یہ سب امور اللہ کی مشیت کے مطابق چلتے ہیں اور ” اگر تمہارے رب کی مشیت ہوتی تو وہ ایسا نہ کرتے پس انہیں چھوڑ دیں جو چاہیں افترا پردازیاں کرتے پھریں ۔ “

درس 68 ایک نظر میں :

اب یہاں سے وہ موضوع شروع ہوتا ہے جو اس پوری سورة کا موضوع ہے اور اس موضوع کے بارے میں تمہیدی باتیں اس سورة میں جگہ جگہ آتی رہیں ہیں۔ ان میں سے آخری تمہیدی بات وہ علیم نظریاتی مسئلہ ہے جو سابقہ دو آیات میں بیان کیا گیا ہے ۔ نیز وہ نظریاتی کشمکش ہے جو حق و باطل کے درمیان برپا رہی ہے اور اس کشمکش کے درمیان شیاطین جن اور شیاطین انس اور دوسری جانب سے انبیاء اور ان کے متبعین کے درمیان دشمنی رہی ہے اور اس پر آخر کار اللہ کی مشیت غالب رہی ہے اور پھر یہ بیان کہ ہدایت وضلالت سنت الہیہ کے مطابق اور مشیت الہیہ کے تحت ہوتی ہے ۔ یعنی درس سابق کے آخر میں آنے والے تمام مباحث جن پر تفصیلی بحث کی گئی ہے بطور تمہید آئے ہیں ۔

اب روئے سخن اس اصل موضوع کی طرف آتا ہے جس کے لئے یہ تمام باتیں بطور تمہید تھیں ۔ یہ موضوع تھا مسئلہ ” ما اھل بہ لغیر اللہ “ یعنی ان چیزوں کی حلت اور حرمت کا مسئلہ جن پر ذبح کے وقت اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو ۔ اس مسئلہ کی اہمیت اسلام کے اس اولین اصول کی وجہ سے ہے کہ اسلام میں حق حاکمیت صرف اللہ کو حاصل ہے ‘ اور اقتدار اعلی کا مستحق صرف اللہ ہے ۔ کسی انسان کو اللہ کے حق حاکمیت کو کسی صورت میں بھی استعمال نہیں کرنا چاہیے ۔ اور اگر مسئلہ اصولی اور نظریاتی ہو تو اس میں چھوٹی سی بات بھی ایک نہایت ہی عظیم معاملے کی طرح اہم ہوجاتی ہے ۔ یہ بات اہم نہیں ہے کہ یہ ایک ذبیحہ کا مسئلہ ہے یا یہ کہ یہ اس قدر معمولی مسئلہ ہے کہ ایک متعین جانور کا گوشت کھانا جائز ہے یا ناجائز ہے یا یہ معاملہ ہے کہ ایک مملکت کا اقتدار اعلی کس کو حاصل ہو یا کسی معاشرے میں اقتدار اعلی کس کو حاصل ہو یا کسی معاشرے میں اقتدار اعلی کس کا ہوگا ۔ اصولوں کے اس معاملے میں دونوں باتوں کی اہمیت برابر ہے کیونکہ دونوں میں ایک شخص اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ حاکمیت کس کو حاصل ہے اللہ کو یا کسی اور کو ۔ یا یہ کہ اقرار حاکمیت الہیہ ہے یا اس کا انکار ہے ۔

اسلامی نظام حیات اور قرآن اس اصول پر ہر جگہ زور دیتا ہے اور چاہے معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا ‘ ہر جگہ اس اصول کو بتکرار اور بتاکید مزید پیش کیا جاتا ہے ‘ اس لئے کہ یہ اصول نہایت ہی اہم نظریاتی اصول ہے ۔ یہ اصول اسلام ہے اور یہی دین ہے ۔ اس اصول کے علاوہ جو مسائل بھی ہیں وہ اس اصول کی عملی تطبیق اور تشریح ہیں اور تفصیلی نتائج ہیں ۔

سورة کے زیر بحث حصے میں یا سورة کی تمام دوسری آیات میں ہم اس حقیقت کو پالیں گے کہ قرآن میں اس اصول کو بتکرار دہرایا گیا ہے اور مختلف شکلوں میں اسے لایا گیا ہے ۔ جب دور جاہلیت کے قانون ‘ نظام اور رسم و رواج پر بحث ہوتی ہے تو بھی اس اصول کو دہرایا جاتا ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ یہ قوانین اور رسوم و رواج شرک ہیں اور اسلام سے سرکشی کے مترادف ہیں ۔ اور یہ قوانین و ضوابط اس نظریہ سے پیدا ہوئے کہ اللہ کے سوا کوئی اور الہ بھی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام ایسے قوانین اور ایسے رسوم و رواج پر سخت ترین تنقید کرتا ہے ۔ اور یہ تنقید مختلف اسالیب اور مختلف طرز ادا میں کی گئی ہے ۔ لیکن اس تنقید کا اصل محور یہی اسلام کا اصول اعظم ہے کہ اس کائنات پر مقتدر اعلی صرف اللہ ہے ۔ یہی اصل اسلام اور اصل ایمان ہے ۔