حق ایک شخص کے سامنے دلائل کے ساتھ آتا ہے اور وہ اس کا انکار کردیتا ہے تو اس کی وجہ ہمیشہ ایک ہوتی ہے۔ بات کو ا س کے صحیح رخ سے دیکھنے کے بجائے الٹے رخ سے دیکھنا۔ کوئی بات خواہ کتنی ہی مدلّل ہو، آدمی اگر اس کو ماننا نه چاہے تو وہ اس کو رد کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ الفاظ پالے گا۔ مثلاً داعی کے دلائل کو دلائل کی حیثیت سے دیکھنے کے بجائے وہ یہ بحث چھیڑ دے گا کہ تمھارے سوا جو دوسرے بزرگ ہیں کیا وہ سب حق سے محروم تھے، اور اسی طرح دوسری باتیں۔
جس آدمی کے اندراس قسم کا مزاج ہو اس کا راہ راست پر آنا انتہائی مشکل ہے۔ وہ ہر بات کو غلط رخ دے کر اس کے انکار کا ایک بہانہ تلاش کرسکتا ہے۔ نظري دلائل کو رد کرنے کے ليے اگر اس کو یہ الفاظ مل رہے تھے کہ یہ اسلاف کے مسلک کے خلاف ہے تو حسی مشاہدہ کو رد کرنے کے ليے وہ الفاظ پالے گا کہ یہ نظر کا دھوکا ہے۔ اس کی حقیقت ایک فرضی طلسم کے سوا اور کچھ نہیں۔ جو مزاج نظری دلیل کو ماننے میں رکاوٹ بنا تھا وہی مزاج حسی دلیل کو ماننے میں بھی رکاوٹ بن جائے گا۔ آدمی اب بھی اسی طرح محروم رہے گا جیسے وہ پہلے محروم تھا۔
اس قسم کے لوگ اپنی نفسیات کے اعتبار سے سرکش واقع ہوتے ہیں۔ وہ ہر حال میں اپنے کو اونچا دیکھنا چاہتے ہیں۔ ایک داعی جب ان کے سامنے حق کا پیغام لے كر آتا ہے تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ وہ ماحول میں اجنبی ہوتا ہے، وہ وقت کی عظمتوں سے خالی ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ اپنے کو منسوب کرنا اپنی حیثیت کو نیچے گرانے کے ہم معنی ہوتا ہے۔ اس لیے برتری کی نفسیات رکھنے والے لوگ اس کو قبول نہیں کرپاتے۔ وہ طرح طرح کی توجیہات پیش کرکے اس کو ماننے سے انکار کردیتے ہیں۔
دانائی یہ ہے کہ آدمی خدا کے نقشہ کو مانے اور اس کے مطابق اپنے ذہن کو چلانے کے لیے تیار ہو۔ اس کے برعکس، نادانی یہ ہے کہ آدمی خدا کے نقشہ کے بجائے خود ساختہ معیار قائم کرے اور کہے کہ جو چیز مجھ کو اس معیار پر ملے گی میں اس کو مانوں گا اور جو چیز اس معیا رپر نہیں ملے گی ،اس کو نہیں مانوں گا۔ ایسے آدمی کے لیے اس دنیا میں صرف بھٹکناہے۔ خدا کی اس دنیا میں آدمی خدا کے مقرر كيے ہوئے طریقوں کی پیروی کرکے منزل تک پہنچ سکتا ہے، نہ کہ اس کے مقررہ طریقہ کو چھوڑ کر۔