آیت 110 وَنُقَلِّبُ اَفْءِدَتَہُمْ وَاَبْصَارَہُمْ کَمَا لَمْ یُؤْمِنُوْا بِہٖٓ اَوَّلَ مَرَّۃٍ اس قاعدے اور قانون کو اچھی طرح سمجھ لیں۔ اس فلسفہ کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو صلاحیتیں دی ہیں اگر وہ ان کو استعمال کرتا ہے تو ان میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ آپ لوگوں کو علم سکھائیں گے تو آپ کے علم میں اضافہ ہوگا۔ آپ آنکھ کا استعمال کریں گے تو آنکھ صحت مند رہے گی ‘ اس کی بصارت برقرار رہے گی۔ اگر آنکھ پر پٹی باندھ دیں گے تو دو چار مہینے کے بعد بصارت زائل ہوجائے گی۔ انسانی جوڑوں کو حرکت کرنے کے لیے بنایا گیا ہے ‘ اگر آپ کسی جوڑ پر پلاسٹر چڑھا دیں گے تو کچھ مہینوں کے بعد اس کی حرکت ختم ہوجائے گی۔ چناچہ جو صلاحیت اللہ نے انسان کو دی ہے اگر وہ اس کا استعمال نہیں کرے گا تو وہ صلاحیت تدریجاً زائل ہوجائے گی۔ اسی طرح حق کو پہچاننے کے لیے بھی اللہ تعالیٰ نے انسان کو باطنی طور پر صلاحیت ودیعت کی ہے۔ اب اگر ایک شخص پر حق منکشف ہوا ہے ‘ اس کے اندر اسے پہچاننے کی صلاحیت موجود ہے ‘ اس کے دل نے گواہی بھی دی ہے کہ یہ حق ہے ‘ لیکن اگر کسی تعصب کی وجہ سے ‘ کسی ضد اور ہٹ دھرمی کے سبب اس نے اس حق کو دیکھنے ‘ سمجھنے اور ماننے سے انکار کردیا ‘ تو اس کی وہ صلاحیت قدرے کم ہوجائے گی۔ اب اس کے بعد پھر دوبارہ کبھی حق کی کوئی چنگاری اس کے دل میں روشن ہوئی تو اس کا اثر اس پر پہلے سے کم ہوگا اور پھر تدریجاً وہ نوبت آجائے گی کہ حق کو پہچاننے کی وہ باطنی صلاحیت ختم ہوجائے گی۔ یہ فلسفہ سورة البقرۃ آیت 7 میں اس طرح بیان ہوا ہے : خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ وَعَلٰی سَمْعِہِمْ ط وَعَلٰٓی اَبْصَارِہِمْ غِشَاوَۃٌ ز وَّلَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ۔ اللہ نے مہر لگا دی ہے ان کے دلوں پر اور ان کی سماعت پر ‘ اور ان کی آنکھوں کے آگے پردے ڈال دیے ہیں ‘ اور ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔ اس لیے کہ جب ضد اور تعصب کی بنا پر وہ لوگ سمجھتے بوجھتے حق کا مسلسل انکار کرتے رہے تو ان کی حق کو پہچاننے کی صلاحیتیں سلب ہوگئیں۔ اب وہ اس انتہا کو پہنچ چکے ہیں جہاں سے واپسی کا کوئی امکان نہیں۔ اس کو point of no return کہتے ہیں۔ ہر معاملے میں واپسی کا ایک وقت ہوتا ہے ‘ لیکن وہ وقت گزر جانے کے بعد ایسا کرنا ممکن نہیں رہتا۔یہی فلسفہ یہاں دوسرے انداز میں پیش کیا جا رہا ہے کہ جب پہلی مرتبہ ان لوگوں پر حق منکشف ہوا ‘ اللہ نے حجت قائم کردی ‘ انہوں نے حق کو پہچان لیا ‘ ان کے دلوں ‘ ان کی روحوں اور باطنی بصیرت نے گواہی دے دی کہ یہ حق ہے ‘ اس کے بعد اگر وہ اس حق کو فوراً مان لیتے تو ان کے لیے بہتر ہوتا۔ لیکن چونکہ انہوں نے نہیں مانا تو اللہ نے فرمایا کہ اس کی سزا کے طور پر ہم ان کے دلوں کو اور ان کی نگاہوں کو الٹ دیں گے ‘ اب وہ سو معجزے دیکھ کر بھی ایمان نہیں لائیں گے۔وَّنَذَرُہُمْ فِیْ طُغْیَانِہِمْ یَعْمَہُوْنَ۔ ۔یہی لفظ یَعْمَھُوْنَ ہم سورة البقرۃ کی آیت 15 میں پڑھ چکے ہیں ‘ جبکہ وہاں آیت 18 میں عُمْیٌ بھی آیا ہے۔ عَمِہَ یَعْمَہُ بصیرت سے محرومی یعنی باطنی اندھے پن کے لیے آتا ہے اور عَمِیَ یَعْمٰی بصارت سے محرومی یعنی آنکھوں سے اندھا ہونے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یہاں فرمایا کہ ہم چھوڑ دیں گے ان کو ان کی باطنی ‘ ذہنی ‘ نفسیاتی اور اخلاقی گمراہیوں کے اندھیروں میں بھٹکنے کے لیے۔