(آیت) ” نمبر 104۔
یہ جو کچھ اللہ کی طرف سے آ رہا ہے بصیرت کی روشنی ہے ۔ بصیرت انسان کو ہدایت دیتی ہے اور راہنمائی کرتی ہے ۔ یہ بذات خود عین روشنی ہے ۔ اس لئے جو شخص اسے دیکھے گا وہ روشن دیکھے گا اور اگر کوئی آنکھیں بند کرے گا تو وہ اندھا ہوگا ۔ ان بصیرتوں اور روشنیوں کے آجانے کے بعد صرف اندھا ہی محروم رہ سکتا ہے ۔ وہ جس کے حواس کام نہ کررہے ہوں اور جس کے شعور کا دراوزہ بند ہو جس کا ضمیر اندھا ہو۔
اس کے بعد نبی کریم ﷺ کو حکم دیا جاتا ہے کہ آپ اپنی برات کا اعلان یوں کردیں کہ میں تم پر نگہبان اور پاسبان مقرر نہیں کیا گیا ہوں۔ (آیت) ” ما انا علیم بحفیظ “۔ (6 : 104) ” میں تمہارے لئے پاسبان مقرر نہی ہوا ہوں “۔ یہاں عبار میں ایک عجیب تناسق ہے ۔ اللہ کی صفت بیان کرتے ہوئے کہا گیا تھا ۔
(آیت) ” اَّ تُدْرِکُہُ الأَبْصَارُ وَہُوَ یُدْرِکُ الأَبْصَارَ وَہُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ (103)
” نگاہیں اس کو نہیں پاسکتیں اور وہ نگاہوں کو پا لیتا ہے وہ نہایت باریک بین اور باخبر ہے ۔ ‘
(آیت) ” قَدْ جَاء کُم بَصَآئِرُ مِن رَّبِّکُمْ فَمَنْ أَبْصَرَ فَلِنَفْسِہِ وَمَنْ عَمِیَ فَعَلَیْْہَا “۔ (6 : 104)
” دیکھو تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے بصیرت کی روشنیاں آگئی ہیں ‘ اب جو بینائی سے کام لے گا اپنا ہی بھلا کرے گا اور جو اندھا بنے گا خود نقصان اٹھائے گا ۔ “
ایک جگہ ابصار اور مقابل میں بصائر ہے ۔ ایک جگہ بصیر ہے اور مقابلے میں عمی ہے ‘ یہ عربی اسلوب میں الفاظ کا بہترین انتخاب ہے۔
اس کے بعد روئے سخن حضرت نبی کریم ﷺ کی طرف مڑ جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ قرآن کریم کے اندر جو اسلوب کلام اختیار کیا گیا ہے وہ ایسا نہیں ہے جو کسی امی شخص کی طرف سے بنایا جاسکتا ہو اور جس سے مالکان بصیرت خود بخود یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ یہ یقینا کلام الہی ہے ۔ لیکن مشرکین انکار اس لئے نہ کرتے تھے کہ ان کے سامنے تشفی بخش دلائل نہ تھے ۔ بلکہ وہ بہانہ سازی کرتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کہتے تھے کہ حضرت محمد ﷺ یہ عظیم علمی کام اور فصیح وبلیغ کلام بعض اہل کتاب سے سیکھ کر بتا رہے ہیں حالانکہ وہ جانتے تھے کہ اس وقت جو اہل کتاب تھے ان کے پاس نہ یہ پیغام تھا اور نہ یہ اعلی کلام ۔ چناچہ حضور ﷺ کو ہدایت کردی جاتی ہے کہ آپ مشرکین سے اعراض کریں اور اللہ کی ہدایات پر عمل کرتین چلے جائیں۔