(آیت) ” نمبر 02 ا۔
جب یہ بات تسلیم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ وحدہ ہی خالق ہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ وہی بادشاہ اور مالک ہے ۔ اور جب اللہ ہی خالق اور مالک ہے تو لازما وہی رازق ہے اس لئے کہ جب وہ خالق ہے اور مالک ہے تو رزق اسی کی ذمہ داری ہے اور یہ رزق وہ اپنی مملکت سے دیتا ہے جس میں اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں ۔ اللہ کی مملکت میں جو کچھ بھی ہے یا جس چیز سے بھی انسان فائدہ اٹھاتے ہیں وہ تمام چیز میں اللہ کی مملوکہ ہیں اور جب تخلیق ‘ ملکیت اور رزق اللہ کا ہے تو یہ بات حتما ثابت ہوجاتی ہے کہ رب بھی وہی ہے ۔ لہذا یہ ہر انسان کا فرض ہوگا کہ وہ خصائص ربوبیت میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے ۔ ربوبیت کی اہم خصوصیات یہ ہیں ‘ مختار ومنتظم ہونا ‘ ہدایت دینا ‘ بادشاہ ہونا اور ایسی پوزیشن میں ہونا کہ اس کی اطاعت کی جائے اور وہ ایک ایسا نظام اور دین دے جس پر لوگ اجتماعی طور پر عمل کریں ۔ (دیکھئے المصطلحات الاربعہ فی القرآن مولانا ومودودی امیر جماعت اسلامی پاکستان ‘ مباحث الوہیت ‘ ربوبیت اور عبادت) لہذا ہر قسم کی عبادت و بندگی اور اطاعت اس کی ہوگی جن میں سے اہم خضوع اور سرتسلیم خم کرنا ہے ۔
عرب لوگ اپنے دور جاہلیت میں اس بات کے منکر نہ تھے کہ اللہ اس کائنات کا خالق ہے ۔ وہ لوگوں کا خالق اور رازق ہے اور تمام لوگوں کو اللہ کی ملکیت سے تمام ضروریات زندگی فراہم ہو رہی ہے ۔ اس کی ملکیت میں کوئی اس کے ساتھ شریک نہیں ہے ۔ عربوں کے علاوہ تمام دوسری جاہلیتیں بھی ان حقائق کا انکار نہ کرتی تھیں (ماسوائے یونانی فلاسفہ کیا کی ایک قلیل تعداد کے) اور اس زمانے میں ہمارے دورجدید کے مادی مذاہب نہ تھے جن کی تشہیر وتشریح یونانی دور کے مقابلے میں زیادہ وسیع طور پر ہو رہی ہے ۔ لہذا سلام کے آغاز کے دور میں اللہ کے ساتھ جن الہوں کو شریک کیا جاتا تھا ان کی عبادت اس لئے کی جاتی تھی کہ یہ الہ الہ حقیقی کے قرب کا سبب اور ذریعہ ہیں ۔ یہ ایک انحراف تھا اور دوسرا انحراف یہ تھا کہ لوگوں کی زندگیوں پر اسلامی نظام حیات کی حکمرانی نہ تھی ۔ اور نہ اس دور میں تحریک اسلامی کو ایسے لوگوں سے سابقہ تھا جو ہمارے دور میں پائے جاتے ہیں جو سرے سے وجود باری کے منکر ہیں اور یہ انکار وہ بغیر علم بغیر ہدایت اور بغیر کسی روشن کتاب کے کر رہے ہیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ آج بھی جو لوگ وجود باری کے منکر ہیں یا انکار خدا پر اصرار کرتے ہیں وہ بہت ہی تھوڑے ہیں اور ایسے لوگ ہمیشہ ایک حقیر اقلیت ہی میں رہیں گے ۔ حقیقی گمراہی یہ تھی جس طرح آج ہے کہ لوگ اللہ کے سوا کسی اور سے نظام زندگی اخذ کرتے تھے اور یہی وہ روایاتی شرک تھا جس پر جاہلیت عربیہ قائم تھی اور تمام دوسری جاہلیتیں قائم رہی ہیں۔
اب جو حقیر اقلیت انکار خدا پر مصر ہے کیا اس کے پاس کوئی علمی دلیل ہے ؟ کیا اس کا انکار سائنس پر مبنی ہے ؟ اگرچہ اس کا دعوی تو ہے لیکن سائنس ان کے اس عقیدے کی تصدیق نہیں کرتی ہے ؟ نہ کوئی سائنسی دلیل ہے اور نہ اس کائنات کی طبیعیات میں اس بات پر کوئی دلیل ہے ۔ یہ دراصل وہ انحراف اور بغاوت ہے جو لوگوں نے اہل کلیسا اور ان کے خداؤں کے خلاف اختیار کی ۔ کلیسا کے خدا اس بات پر مصر تھے کہ لوگ کلیسا کے پاس غلام ہوں حالانکہ اصول دین میں سے کوئی اصل ایسا نہ تھا کہ لوگوں کو غلام رکھا جائے ۔ پھر ان مذہبی پیشواؤں کی شخصیت کی فطری نشوونما بھی غلط تھی ۔ وہ انسان کے انسانی وظائف کو معطل کر رہے تھے مثلا وہ لوگ جنہیں بتییسمہ دے دیا جاتا تھا ۔ (دیکھئے کتاب الخصائص التصور الاسلامی باب الوہیت اور بندگی)
یہ حقیقت ہے کہ قرآن مجید میں تخلیق کائنات اور تقدیر نظام کائنات کا ذکر اس لئے نہیں کیا جاتا کہ ان امور سے اللہ تعالیٰ کی ذات کے وجود پر دلائل قائم کیے جائیں ‘ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کے وجود کے منکرین کا موقف اس قدر بودا تھا کہ قرآن کریم جیسی سنجیدہ کتاب میں اس پر بحث مناسب ہی نہ تھی ۔ خلق اور تقدیر کے حقائق تو قرآن مجید میں اس لئے لائے گئے ہیں کہ لوگ راہ راست پر آجائیں ‘ وہ اپنے عقائد و اعمال میں اللہ کی الوہیت ‘ اس کی حاکمیت اور اس کی مکمل بندگی کو نافذ کریں اور اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں ۔ یہی صورت حال حقیقت حیات کی ہے ۔
لیکن سائنسی اعتبار سے تخلیق اور دنیا کو ایک نہایت ہی حکیمانہ اندازے کے مطابق پیدا کرنا ‘ اور اس کائنات کے اندر زندگی کی مختلف شکلوں کو پیدا کرنا ‘ ایسے حقائق ہیں جو ان لوگوں کے دلائل کے قلع قمع کرنے کے لئے نہایت ہی کافی وشافی ہیں ۔ جو لوگ ذات باری کے وجود کے بارے میں کج بحثی کرتے ہیں وہ ان حقائق کے ہوتے ہوئے وجود باری کے خلاف کوئی قوی دلیل نہیں لاسکتے ‘ ماسوائے اس کے کہ وہ ہٹ دھرمی کریں اور اپنے آپ کو شرمندہ کریں۔
جو لیان ہاکسلے نے دو کتابیں لکھی ہیں ” انسان اکیلا کھڑا ہے “ اور ” انسان جدید دنیا میں “ یہ شخص ایسے ہی لوگوں میں سے ہے جو اس سلسلے میں نہایت ہی دریدہ دینی سے کام لیتے ہیں اور ہٹ دھرمی کرتے ہیں ۔ یہ شخص ایسی باتیں کرتا ہے جو صرف اس کے دل کی خواہشات ہیں اور ان باتوں پر کوئی علمی اور سائنسی دلیل اس کے پاس نہیں ہے ۔ یہ اپنی کتاب ” انسان جدید دنیا میں “۔ یہ شخص ایسے ہی لوگوں میں سے ہے جو اس سلسلے میں نہایت ہی دریدہ دینی سے کام لیتے ہیں اور ہٹ دھرمی کرتے ہیں ۔ یہ شخص ایسی باتیں کرتا ہے جو صرف اس کے دل کی خواہشات ہیں اور ان باتوں پر کوئی علمی اور سائنسی دلیل اس کے پاس نہیں ہے ۔ یہ اپنی کتاب ” انسان جدید دنیا میں “ میں دین کے موضوع پر یہ کلام کرتا ہے :
” ہمیں سائنس کی ترقی ‘ منطق کی ترقی اور علم النفس کی ترقی نے اس مقام تک پہنچا دیا ہے کہ ایسے حالات میں اب اس کائنات کے کسی خدا کو فرض کرنے کا فائدہ نہیں ہے ۔ طبیعی علوم نے ہماری عقل سے خدا کو نکال دیا ہے ۔ چناچہ اب وہ اس کائنات کا حاکم اور مدبر نہیں رہا ہے ۔ اب یہ خدا اگر ہے تو وہ پہلا سبب (cAuse) ہے اور ایک مجمل یا ناقابل فہم بنیاد ہے “۔ دل ڈیورانٹ اپنی کتاب ” مناہج فلاسفہ “ میں لکھتے ہیں :
” فلسفہ بھی خدا کی ذات سے بحث کرتا ہے لیکن فلسفے کا خدا لاہوتی خدا نہیں ہے جسے وہ لوگ عالم طبیعی سے خارج وجود سمجھتے ہیں بلکہ بلاسفہ کا الہ ” قانون عالم ‘ اس کا ہیکل ‘ اس کی زندگی اور اس کی مشیت ہے “ ۔ ہمارے قارئین ایسی باتیں برداشت نہیں کرسکتے لیکن بہر حال یہ باتیں کہی گئی ہیں ۔
ہم اپنے مسائل کا فیصلہ نہ قرآن سے کرتے ہیں اور نہ ہی اپنی عقل سے ان کے ان غلط اقوال پر کوئی فیصلہ کرتے ہیں کیونکہ ہماری عقل بھی قرآن ہدایت سے فیض یاب ہے ۔ ہم ان لوگوں کا فیصلہ انہی جیسے سائنس دانوں کی عدالت میں پیش کردیتے ہیں جنہوں نے اس مسئلے پر ذرا سنجیدگی سے غور کیا ہے ۔
جان کلیفلانڈ کو تران ‘ مشہور ریاضی دان اور ماہر طبیعیات ہیں۔ انہوں نے جامعہ کو رنل سے ڈاکٹریت کی ڈگری لی اور ایک دوسری یونیورسٹی میں طبیعیات کے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ ہیں ۔ یہ شخص اپنے ایک مقالے میں جو ” حتمی نتیجہ “ کے عنوان سے کتاب ” اللہ سائنس کے دور میں روز روشن کی طرح ہیں “ میں شائع ہوا ‘ لکھتے ہیں :
” کیا کوئی سمجھ دار آدمی یہ تصور کرسکتا ہے کہ مادہ جو عقل اور حکمت سے عاری ہے ‘ وہ خود اپنے آپ کو پیدا کرسکتا ہے اور یہ بھی محض اتفاق سے ۔ کون عقلمند ہے جو ایسا عقیدہ رکھ سکتا ہے یا کوئی یہ سوچ سکتا ہے کہ اس بےجان اور بےعقل مادے نے یہ پورانظام اور یہ قوانین طبیعی ایجاد کئے اور پھر یہ قوانین اس نے اپنے اوپر لاگو کرلیے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہر معقول انسان اس سوال کا جواب نفی میں دے گا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جب مادہ قوت میں بدلتا ہے یا قوت مادے میں بدلتی ہے تو یہ عمل بھی متعین قوانین کے تحت ہوتا ہے وہ مادہ جو یہ نتائج پیدا کرتا ہے وہ بھی ان قوانین طبیعی کا پابند ہے جن کا وہ مادہ پابند ہے وج اس سے پہلے تھا “۔
” کیمیائی تجربے بتاتے ہیں کہ مادے میں سے بعض چیزیں زوال اور فنا کی طرف جارہی ہیں ۔ ان میں سے بعض فنا کی طرف بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہیں ۔ بعض دوسری ایسی ہیں تو سست رفتاری سے فنا کی طرف جارہی ہیں ۔ اس کے باوجود یہ بات مسلمہ ہے کہ مادہ ابدی نہیں ہے اور جب وہ ابدی نہیں ہے تو معلوم ہوا کہ وہ ازلی بھی نہیں ہے۔ کیونکہ ایک دن ایسا تھا جس میں مادے کی ابتدا ہوئی ۔ کیمیائی شواہد اور دوسرے سائنسی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ مادے کا آغاز اس طرح نہیں ہوا ہے کہ وہ آہستہ آہستہ پیدا ہوا ہو یا وہ تدریج کے ساتھ آگے بڑھا ہو بلکہ دلائل یہ بتاتے ہیں کہ مادہ اچانک نمودار ہوا ہے ۔ آج سائنس نے وہ وقت بھی متعین کردیا ہے جس میں مادہ وجود میں آیا ۔ ان حقائق سے معلوم ہوگیا کہ یہ جہان مخلوق ہے اور جب سے یہ پیدا ہوا ہے وہ متعین قوانین قدرت کا پابند ہے ۔ لہذا اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے اور نہ گنجائش ہے کہ یہاں معاملات اتفاقات سے طے ہوتے ہیں ۔ “
” جب یہ مادی دنیا ‘ اس بات کی اہل نہیں ہے کہ وہ اپنے آپ کو خود پیدا کرسکے ‘ یا وہ قوانین اور ضابطے متعین کرسکے جس کے تحت دنیا کو چلنا ہے تو یہ بات متعین ہوگئی اور ثابت ہوگئی کہ یہ مادی مخلوقات کسی غیر مادی ذات کی پیدا کردہ ہے ۔ تمام قرائن اور شواہد اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ اس ذات خالق کو عقل و حکمت کا حامل ہونا چاہئے ۔ عقل عالم مادی میں کوئی کام بغیر اس کے اس وقت تک نہیں کرسکتی جب تک اس کے ساتھ ارادہ نہ ہو ۔ مثلا طب اور نفسیاتی علاج کا نظام اس بات کو ثابت کرتا ہے اور جو ذات صاحب ارادہ ہوگی وہ لازما اپنا ذاتی وجود رکھتی ہوگی لہذا خود ہماری عقل جو حتمی اور لازمی نتیجہ نکالتی ہے وہ یہ ہے کہ نہ صرف یہ کہ اس عالم کا ایک خالق ہے بلکہ وہ خالق علیم و حکیم بھی ہے اور ہر چیز پر قادر بھی ۔ وہ اس عالم کی تخلیق کی بھی قدرت رکھتا ہے اور اس کا انتظام اور تدبیر بھی کرتا ہے ‘ اور یہ بھی ضروری ہے کہ وہ خالق علیم و حکیم بھی ہے اور ہر چیز پر قادر بھی ۔ وہ اس عالم کی تخلیق کی بھی قدرت رکھتا ہے اور اس کا انتظام اور تدبیر بھی کرتا ہے ‘ اور یہ بھی ضروری ہے کہ وہ خالق دائم الوجود ہو ۔ اس کی آیات و علامات ہر جگہ پائی جاتی ہوں لہذا کوئی معقول شخص اس عالم کے مسئلہ کو اس وقت تک حل نہیں کرسکتا جب تک وہ وجود باری تعالیٰ پر ایمان نہ رکھتا ہو ‘ جو اس عالم کا خالق ہو اور اس کی طرف متوجہ ہو جس طرح ہم نے اس مقالے کے آغاز میں کہا “۔
لارڈ کلیفن کے زمانے کے بعد سائنسی علوم نے جس قدر ترقی کی ہے ‘ اس کے بعد ہمارے لئے یہ دلیل بےمثال انداز میں مؤکد ہوگئی ہے ۔ اس سے پہلے اس قسم کا کوئی تاکیدی استدلال نہ تھا کہ جس قدر بھی ہم گہرے غور وفکر سے کام لیں تو بہت جلد سائنس ہمیں مجبور کردے گی کہ ہم خدا پر ایمان لائیں۔
ایک دوسرے ماہر علوم جدید اور بیالوجی کے ماہر فرانک ایلن ایک مقالے میں جس کا عنوان یہ ہے ‘ تخلیق کائنات اتفاق ہے یا بالارادہ ہے “ اور یہ مقالہ بھی مذکورہ بالاکتاب میں ہے ۔ لکھتے ہیں :
” اکثر اوقات یہ کہا جاتا ہے کہ یہ مادی کائنات کسی بھی خالق کی محتاج نہیں ہے ۔ لیکن اگر ہم تسلیم کریں کہ یہ جہان موجود ہے تو سوال یہ ہوگا کہ یہ کس طرح موجود ہوا ۔ اس سوال کے صرف چار جواب ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ محض وہم اور خیال ہے ‘ تو یہ احتمال اس لئے غلط ہوگا کہ ہم نے اس کا وجود تسلیم کرکے گفتگو شروع کی ہے ۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ یہ کائنات از خود وجود میں آئی ہے اور پھر تیسرا احتمال یہ ہے کہ یہ ازلی ہو اور اس کا کوئی آغاز نہ ہو اور چوتھا یہ ہے کہ اس کا کوئی خالق ہو ۔
جہاں تک پہلے احتمال کا تعلق ہے تو اسے تسلیم کرنے میں اور کوئی مشکل نہیں ہے ماسوائے اس کے کہ ہمارا شعور واحساس اس احتمال کو کبھی تسلیم نہیں کرے گا کہ یہ عالم محض وہم ہے اور اس میں حقیقت کا کوئی شائبہ نہیں ہے ۔ ماضی قریب میں یہ رائے سرجیمس جینز نے اختیار کی ۔ انہوں نے طبیعیات میں اس رائے کا اظہار کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ اس جہان کا کوئی عملی وجود نہیں ہے بلکہ ہمارے ذہن کے اندر یہ محض ایک تصویر ہے ۔ اس رائے کے نتیجے میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم محض ادہام کی دنیا میں رہتے ہیں ۔ مثلا یہ ریل گاڑی جس میں ہم سوار ہو کر جاتے ہیں اور جسے ہم چھوتے ہیں یہ محض وہم ہے ۔ ان گاڑیوں میں جو لوگ بیٹھے ہوتے ہیں وہ بھی محض ادہام ہیں اور یہ ریلیں جن صحراؤں اور دریاؤں کو عبور کرتی چلی جارہی ہیں ان کا بھی کوئی وجود نہیں ہے ۔ وہ جن پلوں کے اوپر سے گزرتی ہیں وہ بھی محض وہم ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس رائے اور نظریے سے بڑھ کر اور کوئی وہمی بات نہ ہوگی۔
رہی دوسری رائے کہ یہ جہان اور یہ پوری مادی دنیا خودبخود وجود میں آگئی تو یہ بات اور احتمال سابقہ احتمال سے بھی زیادہ بودا ہے ‘ زیادہ احمقانہ ہے اور اس کے بارے میں بھی بحث وجدال کرنا یا اس پر سوچنا تک حماقت ہے ۔
تیسری رائے یہ کہ یہ جہان ازلی ابدی ہے اور اس کا کوئی آغاز نہیں ہے ۔ تو یہ رائے چوتھی رائے کے ساتھ ازلیت میں مشترک ہے کیونکہ وہاں الہ ازلی ہے یہاں مادہ ازلی ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ ہم صفت ازلیت کو کسی مردہ جہان کی طرف راجع کرتے ہیں یا ہم صفت ازلیت کو کسی زندہ حی وقیوم اور خالق کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان دونوں احتمالات کو مان لینے میں اس قدر شبہات ومشکلات نہیں ہیں جس قدر پہلے دو احتمالات کو قبول کرنے میں ہیں ۔ لیکن ڈائنامک حرارت کے قوانین یہ بتاتے ہیں کہ اس جہان کی ضرورت تدریجا ختم ہو رہی ہے اور آخر جا کر اس نے ختم ہونا ہے اور ایک دن ایسا آئے گا کہ دنیا کا درجہ حرارت نہایت کم ہوجائے گا مثلا مطلق صفر تک ۔ اس دن قوت ختم ہوجائے گی ‘ زندگی محال ہوجائے گی ۔ ایسا ایک دن ضرور آئے گا جب تمام اجسام کا درجہ حرارت صفر مطلق تک پہنچ جائے گا ۔ یہ حالت طویل زمانے کے بعد ہوگی ۔ جلنے والا سورج ‘ بھڑکتے ہوئے ستارے اور یہ زمین اپنی زندگی کے مختلف انواع کے ساتھ یہ بتا رہی ہے کہ اس کا آغاز ایک وقت سے ہوا ‘ اور اس متعین وقت میں یہ وجود میں آئی ۔ لہذا اس بات کو تسلیم کرنا ضروری ہے کہ اس جہان کا ایک خالق ہے جو ازلی اور ابدی ہے ‘ اس کا کوئی آغاز نہیں ہے اور نہ خاتمہ ہے ‘ وہ ہر چیز کو جانتا ہے ‘ وہ نہایت ہی قوی اور اس کی قوت کی کوئی انتہا نہیں ہے ۔ لہذا حقیقی بات یہی ہے کہ اس کے دست قدرت نے اس جہان کو بنایا ہے ۔ “
حقیقت یہ ہے کہ اللہ ہی ہر چیز کا خالق ہے اور اس کے سوا کوئی اور الہ نہیں ہے یہاں قرآن کریم تخلیق کی اساس پر یہ اصول قائم کرتا ہے کہ چونکہ وہ خالق ہے لہذا یہ امر واجب ہے کہ صرف اسی کی بندگی کی جائے اور صرف وہی رب ہے ‘ اپنے تمام مفاہیم اور معانی کے ساتھ یعنی حاکم بھی وہی ہے ۔ مربی اور تربیت کنندہ بھیوہی ہے ‘ ہادی ورہبر بھی وہی ہے اور قیوم بھی وہی ہے ۔
(آیت) ” ذَلِکُمُ اللّہُ رَبُّکُمْ لا إِلَـہَ إِلاَّ ہُوَ خَالِقُ کُلِّ شَیْْء ٍ فَاعْبُدُوہُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْْء ٍ وَکِیْلٌ(102)
” یہ ہے اللہ تمہارا رب کوئی خدا ‘ اس کے سوا نہیں ہے ‘ ہر چیز کا خالق ‘ لہذا تم اسی کی بندگی کرو اور وہ ہر چیز کا کفیل ہے ۔ “
اللہ قیوم اور نگران ہے ‘ صرف انسانوں پر ہی نہیں بلکہ تمام کائنات کا قیوم اور منتظم اعلی ہے اس لئے کہ وہ سب کا خالق ہے ۔ اس اصول تخلیق کے یہاں ذکر کا مقصد ہی یہ ہے اور اس بات کا انکار مشرکین مکہ دور جاہلیت میں بھی نہ کرتے تھے کہ اللہ خالق ہے ‘ لیکن وہ لوگ خالق کائنات کی تخلیق کا حق نہ ادا کرتے تھے ۔ یعنی اللہ کی حاکمیت کو تسلیم کرنا اور اس کے سامنے سرتسلیم خم کرنا اور اس کے تجویز کردہ نظام حیات کو اپنی پوری زندگی میں اپنانا ۔ یہ صاحب نہایت یقین سے یہ باتیں کرتے ہیں لیکن خود انسانی علم بھی اسے تسلیم نہیں کرتا ۔ پھر حرارت کے ڈائنامک قوانین بھی حتمی نہیں ۔ البتہ تشریح کائنات کے دوسرے نظریات میں سے یہ بھی ایک نظریہ ہے ۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس میں ترمیم ہوجائے اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ نظریہ سرے سے اڑ جائے ۔ ہماری عادت یہ نہیں ہے کہ ہم سائنس کے اصولوں سے اسلام کی صحت پر استدلال کریں ۔ نہ ہم سائنس کو اسلام کا تصدیق کنندہ سمجھتے ہیں ۔ ہم ان لوگوں کے اصولوں سے اسلام کی صحت پر استدلال کریں نہ ہم سائنس کو اسلام کا تصدیق کنندہ سمجھتے ہیں ۔ ہم ان لوگوں کے لئے یہ سائنسی شواہد پیش کرتے ہیں جو صرف سائنس کو الہ سمجھتے ہیں ۔ گویا یہ اقوال ان خداؤں کے ہیں جن پر جو لیان ہاکسلے یقین رکھتے ہیں ۔
اس کے بعد اللہ کی صفات کی یہاں ایک تعبیر پیش کی جاتی ہے ۔ یہ ایک ایسی تعبیر ہے جو موضوع کے ہر پہلو پر روشنی ڈالتی ہے اور میں نہیں سمجھتا کہ کوئی انسانی زبان اللہ کی ایسی توصیف کرسکتی ہے ۔ لہذا ہمیں چاہئے کہ ہم قرآن کو اسی طرح بلاتشریح دیکھیں کہ وہ نہایت صاف و شفاف انداز میں ذات باری کے بارے میں روشنی ڈالے اور اس مشہد کی تصویر کشی کرے جس کے اندر ایک نہایت ہی عظیم اور ہولناک حقیقت پوشیدہ ہے تاکہ صفات باری کے معاملے میں انسان کو پوری تشفی ہو اور اس کا ضمیر روشن ہو۔