آیت 102 ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمْ ج یہ انداز خطاب سمجھنے کی ضرورت ہے۔ مشرکین مکہ اور اہل عرب اللہ کے منکر نہیں تھے۔ وہ اللہ کو مانتے تو تھے لیکن اللہ کی صفات ‘ اس کی قدرت ‘ اس کی عظمت کے بارے میں ان کا ذہن کچھ محدود تھا۔ اس لیے یہاں یہ انداز اختیار کیا گیا ہے کہ دیکھو جس اللہ کو تم مانتے ہو وہی تو تمہارا رب اور پروردگار ہے۔ وہ اللہ بہت بلند شان والا ہے۔ تم نے اس کی اصل حقیقت کو نہیں پہچانا۔ تم نے اس کو کوئی ایسی شخصیت سمجھ لیا ہے جس کے اوپر کوئی دباؤ ڈال کر بھی اپنی بات منوائی جاسکتی ہے۔ تم فرشتوں کو اس کی بیٹیاں سمجھتے ہو۔ تمہارے خیال میں یہ جس کی سفارش کریں گے اس کو بخش دیا جائے گا۔ اس طرح تم نے اللہ کو بھی اپنے اوپر ہی قیاس کرلیا ہے کہ جس طرح تم اپنی بیٹی کی بات ردّ نہیں کرتے ‘ اسی طرح تم سمجھتے ہو کہ اللہ بھی فرشتوں کی بات نہیں ٹالے گا۔ اللہ تعالیٰ کی حقیقی قدرت ‘ اس کی عظمت ‘ اس کا وراء الوراء ہونا ‘ اس کا بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْم ہونا ‘ اس کا عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْر ہونا ‘ اس کا ہر جگہ پر ہر وقت موجود ہونا ‘ اس کی ایسی صفات ہیں جن کا تصور تم لوگ نہیں کر پا رہے ہو۔ لہٰذا اگر تم سمجھنا چاہو تو سمجھ لو : ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمْ ج وہ ہے اللہ تمہارا رب جس کی یہ شان اور قدرت بیان ہو رہی ہے۔لَآ اِلٰہَ الاَّ ہُوَط خَالِقُ کُلِّ شَیْءٍ فَاعْبُدُوْہُج وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ وَّکِیْلٌ ۔اس کے سوا کوئی تمہارے لیے کارساز نہیں۔ خود اس کا حکم ہے : اَلَّا تَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِیْ وَکِیْلاً بنی اسرائیل کہ میرے سوا کسی اور کو اپنا کار ساز نہ سمجھا کرو۔