وَجَعَلُوْا
لِلّٰهِ
شُرَكَآءَ
الْجِنَّ
وَخَلَقَهُمْ
وَخَرَقُوْا
لَهٗ
بَنِیْنَ
وَبَنٰتٍ
بِغَیْرِ
عِلْمٍ ؕ
سُبْحٰنَهٗ
وَتَعٰلٰی
عَمَّا
یَصِفُوْنَ
۟۠
3

(آیت) ” نمبر 100 تا 101۔

عرب کے بعض مشرکین جنوں کی عبادت کرتے تھے ‘ لیکن ان کو علم نہیں تھا کہ جن ہیں کیا ۔ البتہ یہ انہیں ایک وہمی سی مخلوق سمجھتے تھے اور یہ بتوں کے پیچھے کوئی مخلوق تھی ۔ انسان جب ایک بالشت کے برابر بھی عقیدہ توحید سے ہٹ جائے تو وہ اس قدر ہٹتا چلا جاتا ہے کہ راہ حق سے کوسوں دور ہوجاتا ہے لیکن آخر کار انسان دیکھتا ہے کہ نقطہ آغاز کا انحراف اگرچہ تھوڑا سا اور ناقابل لحاظ تھا لیکن آگے جا کر دونوں راہوں کے درمیان بہت بڑی خلیج واقع ہوجاتی ہے ۔ یہ مشرکین مکہ آغاز میں حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے دین پر تھے اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کا دین وہی دین توحید تھا جسے اس علاقے میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے پیش کیا تھا۔ لیکن یہ لوگ اس عقیدہ توحید سے انکار کر بیٹھے ۔ اگرچہ یہ انحراف آغاز کار میں بہت ہی معمولی ہوگا لیکن وہ بت پرستی کے فعل شنیع پر منتج ہوا اور وہ یہاں تک آپہنچے کہ جنوں کو اللہ کا شریک ٹھہرانے لگے حالانکہ جن اللہ کی مخلوق ہیں ۔

(آیت) ” وَجَعَلُواْ لِلّہِ شُرَکَاء الْجِنَّ وَخَلَقَہُمْ (6 : 100)

” اس پر بھی لوگوں نے جنوں کو اللہ کا شریک ٹھہرا دیا حالانکہ وہ ان کا خالق ہے “۔

دنیا میں جس قدر بت پرست مذاہب گزرے ہیں اور جن کی نوعیت مختلف جاہلیتوں میں مختلف رہی ہے ان سب میں ایک شریر مخلوق کا تصور رہا ہے اور اس شریر مخلوق کا تصور ایسا ہی رہا ہے جس طرح شیطان کا تصور ہے ۔ تمام بت پرست ہمیشہ اس شریر مخلوق سے ڈرتے رہے ہیں ۔ چاہے یہ شریر مخلوق ارواح شریرہ ہوں یا اشخاص شریرہ ۔ ان بت پرست مذاہب میں یہ رواج رہا ہے کہ وہ اس شریر مخلوق کے شر سے بچنے کے لئے کچھ قربانیاں دیں ۔ ہوتے ہوتے یہ شرکیہ مذاہب ان کی پوجا کرنے لگے ۔

عرب بت پرستی میں بھی ایسے ہی تصورات پائے جاتے تھے مثلا وہ جنوں کی پوجا کرتے تھے ۔ ان کو اللہ کا شریک ٹھہراتے تھے حالانکہ اللہ کی ذات ان چیزوں سے پاک ہے ۔ قرآن کریم یہاں ان کے ان عقائد کی کمزوری ان کو بتاتا ہے اور بالکل ایک لفظ میں بات کو ختم کردیتا ہے۔ (خلقھم) اللہ نے تو ان کو خود پیدا کیا۔ یہ ہے تو صرف ایک لفظ لیکن ان کے عقائد کو مذاق بنا دینے کے لئے یہ ایک لفظ ہی کافی ہے ۔ جب پیدا کرنے والا اللہ ہی ہے اور اس نے ان کی تخلیق کی ہے تو اللہ کی مخلوق اس کے ساتھ شریک کیسے ہوجائے گی اور اس مخلوق کو الوہیت اور ربوبیت کے حقوق کیسے حاصل ہوجائیں گے ۔

ان لوگوں نے صرف اس دعوے پر ہی اکتفا نہ کیا ‘ کیونکہ بت پرستانہ ادہام جب شروع ہوتے ہیں تو پھر کسی حد پر جا کر نہیں رکتے اور یہ انحراف آگے ہی بڑھتا جاتا ہے ۔ چناچہ وہ اس سے بھی آگے بڑھے اور یہ عقیدہ اختیار کرلیا کہ اللہ کے بیٹے اور بیٹیاں بھی ہیں۔

(آیت) ” ْ وَخَرَقُواْ لَہُ بَنِیْنَ وَبَنَاتٍ بِغَیْْرِ عِلْمٍ “ (6 : 100)

” اور بےجانے بوجھے اس کے لئے بیٹے اور بیٹیاں تصنیف کردیں ‘ ‘۔

خرقوا کا مفہوم ہے کہ انہوں نے جعلی طور پر یہ عقیدہ تصنیف کرلیا ۔ خرقوا کے معنے ہوتے ہیں اپنی جانب سے جھوٹ گھڑنا ۔ خرق کے اصل معنی پھاڑنے کے ہیں مثلا کوئی جھوٹی خبر لے کر آتا ہے ۔ یہودیوں کے نزدیک حضرت عزیر ابن اللہ تھے ۔ نصاری حضرت مسیح کو ابن اللہ کہتے تھے ۔ مشرکین مکہ کے نزدیک ملائکہ اللہ کی بیٹیاں تھیں ۔ وہ فرشتوں کو مادہ تصور کرتے تھے لیکن وہ کوئی معقول بات نہ کرتے تھے کہ وہ کیوں مؤنث ہیں ۔ کیونکہ جھوٹے دعوے ہمیشہ بغیر علم کے ہوا کرتے ہیں لہذا ان لوگوں کے دعوے بھی بغیر علم کے ہیں۔

(آیت) ” ٍ سُبْحَانَہُ وَتَعَالَی عَمَّا یَصِفُونَ (100)

” حالانکہ وہ پاک اور بالاتر ہے ان باتوں سے جو یہ لوگ کہتے ہیں ۔ “

اس کے بعد اب اللہ تعالیٰ ان کے ان افتراؤں کے جواب میں اصل حقیقت سامنے لاتے ہیں ۔ ان کے غلط تصورات کی تردید فرماتے ہیں اور یہ بتاتے ہیں کہ ان میں کیا کیا جھول ہے ۔