آیت 92{ وَاَمَّآ اِنْ کَانَ مِنَ الْمُکَذِّبِیْنَ الضَّآلِّیْنَ۔ } ”اور اگر وہ تھا جھٹلانے والوں اور گمراہوں میں سے۔“ یہاں یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ قبل ازیں دوسرے رکوع میں جب اس گروہ کا ذکر ہوا تو وہاں ان لوگوں کو ”اَیُّھَا الضَّآلُّـــوْنَ الْمُکَذِّبُوْنَ“ کہہ کر مخاطب فرمایا گیا تھا ‘ لیکن یہاں پر انہیں ”الْمُکَذِّبِیْنَ الضَّآلِّیْنَ“ کہا گیا ہے۔ یعنی یہاں پر الفاظ کی ترتیب بدل گئی ہے۔ بظاہر اس کی توجیہہ یہ سمجھ آتی ہے کہ سزا کے حوالے سے ان کے بڑے اور اصل جرم کا ذکر پہلے کیا گیا ہے۔ حق کو جھٹلا دینے کے مقابلے میں گمراہی نسبتاً چھوٹا جرم ہے ‘ کیونکہ کسی گمراہ اور بھٹکے ہوئے شخص کو اگر کوئی سیدھا راستہ دکھا دے تو ممکن ہے وہ اسے قبول کرلے۔ لیکن جو حق کو جھٹلا دے اس کا سیدھے راستے پر گامزن ہونا ممکن نہیں۔