فلو لا ............ صدقین (78) (6 5: 68۔ 78) ” اب اگر تم کسی کے محوم نہیں اور اپنے خیال میں سچے ہو تو اس وقت اس کی نکلتی ہوئی جان کو واپس کیوں نہیں لاتے۔ “ اگر بات اس طرح ہے جس طرح تم کہتے ہو ، کہ کوئی جزا وسزا نہیں ہے اور تم آزاد ہو تو روح جب حلقوم کو آجائے تو وہاں سے لوٹا دو کیونکہ وہ تو حساب و کتاب دینے جارہی ہے اور تمہارے ہوتے ہوئے جارہی ہے تم بےبس کھڑے کے کھڑے رہ جاتے ہو وہ تو ایک بڑی ذمہ داری کا جواب دینے جارہی ہے اور تم خاموش اور بےبس کھڑے ہو۔
اب تمام صحبتیں ختم ہوجاتی ہیں۔ ہر دلیل رد ہوجاتی ہے۔ ہر حیلہ اور ہر بہانہ ختم ہوتا ہے اور اس حقیقت کا دباؤ انسانی جسم اور عقل پر اور زیادہ ہوجاتا ہے اور وہ دفاع کی قوت نہیں رکھتا۔ اسے تسلیم کرنے کے سوا چارہ نہیں رہتا الا یہ کہ وہ ہٹ دھرمی پر اترآئے۔
اب تھوڑا سا تبصرہ اس روح پر ہوتا ہے جو پرواز کرگئی ہے۔ یہ حلقوم تک آئی ، اس نے اس فانی زندگی پر آخری نظر ڈالی اور باقی رہنے والی دنیا پر نظر ٹکا دی اور اس میدان کی طرف سفر کرگئی۔ جس میں ہر شخص سے باز پرس ہوگی جس کی یہ مکذبین تکذیب کررہے ہیں :۔