آیت 86 ‘ 87{ فَلَوْلَآ اِنْ کُنْتُمْ غَیْرَ مَدِیْنِیْنَ رض تَرْجِعُوْنَہَآ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ۔ } ”تو اگر تم کسی کے اختیار میں نہیں ہو تو اس جان کو لوٹا کیوں نہیں لیتے اگر تم سچے ہو ؟“ یہاں الفاظ کی ترتیب اس طرح ہے کہ ان دونوں آیات کو ملانے سے ایک فقرہ مکمل ہوتا ہے۔ قرآن کے خصوصی اسلوب کی وجہ سے لَوْلَا پہلی آیت کے شروع میں آگیا ہے ‘ لیکن اس کا مفہوم دوسری آیت کے ساتھ ملنے سے واضح ہوتا ہے۔ چناچہ مفہوم کی وضاحت کے لیے یوں سمجھیں کہ ان دونوں آیات میں الفاظ کی اصل ترتیب یوں ہے : فَاِنْ کُنْتُمْ غَیْرَ مَدِیْنِیْنَ ‘ لَوْلَا تَرْجِعُوْنَہَا اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ ؟ کہ تم لوگ آئے دن اپنے عزیز و اقارب کی اموات کا مشاہدہ کرتے رہتے ہو۔ تم میں سے جب کسی کی موت کا وقت آجاتا ہے تو تم سب مل کر بھی اور اپنے تمام وسائل استعمال میں لا کر بھی اس کو بچا نہیں پاتے ہو۔ اس معاملے میں تمہارے بڑے بڑے صاحب اختیار و اقتدار لوگ بھی بالکل بےبس ہوجاتے ہیں۔ شاہی اطباء اور ماہر ڈاکٹرز کھڑے کے کھڑے رہ جاتے ہیں اور بادشاہ سلامت ان کی آنکھوں کے سامنے لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ تم لوگ دعویٰ کرتے ہو کہ تم خود ہی پیدا ہوتے ہو اور خود ہی مرتے ہو اور تمہاری زندگی اور موت اللہ کے اختیار میں نہیں ہے۔ اگر تم اپنے اس دعوے میں سچے ہو تو اپنے پیاروں کو موت کے منہ میں جاتے دیکھ کر بےبسی کی تصویر بن کر کیوں رہ جاتے ہو ؟ اپنے وسائل کو استعمال میں لا کر انہیں بچا کیوں نہیں لیتے ہو ؟ اس کے بعد اگلی آیات میں ان تین گروہوں کی جزا و سزا کا تذکرہ ہے جن کا ذکر سورة کے آغاز میں ہوا تھا۔