وَاَنْتُمْ
حِیْنَىِٕذٍ
تَنْظُرُوْنَ
۟ۙ
3

وانتم ............ تنظرون (6 5:4 8) سے نظر آتا ہے کہ اس کے ارد گرد بھی اقرباء عاجز والا چار کھڑے ہیں۔

اب روح اس دنیا سے پرواز کرگئی ہے اور میت نے سب کچھ پیچھے دنیا میں چھوڑ دیا ہے۔ یہ جدید اور نئی دنیا میں قدم رکھ رہا ہے۔ اب اس کے پاس صرف وہی کچھ ہے جو کمکایا ہے۔ باقی خیروشر پر اب اسے کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ وہاں اس جدید دنیا میں یہ سب کچھ دیکھ رہا ہے لیکن پیچھے مڑ کر کسی کو کچھ بتا نہیں سکتا۔ وہ اپنے ماحول سے جدا ہوچکا ہے۔ ایک جسم پڑا ہے جسے ناظرین دیکھ رہے ہیں لیکن انہیں بھی نہیں پتہ کہ اس پر کیا گزر رہی ہے۔ یہاں آکر انسان کی قدرت اور انسان کے علم کے حدود ختم ہوجاتے ہیں۔ اس مقام پر آکر انسان اعتراف کرتے ہیں کہ وہ عاجز و لاچار ہیں۔ وہ بہت ہی محدود قوت کے مالک ہیں اب کوئی جدال نہیں رہتا .... یہاں آکر اس منظر پر پردہ گر جاتا ہے ، کچھ نظر نہیں آتا ، کچھ معلوم نہیں اور منظر پر کوئی حرکت نظر نہیں آتی۔

اب صرف قدرت الٰیہہ ہی ہوتی ہے۔ علم الٰہی ہی ہوتا ہے۔ تمام معاملات اللہ کے ہاتھ میں ہوتے ہیں اور اس امر میں اب کوئی شبہ نہیں رہتا بلکہ شبہ کاشائبہ تک نہیں رہتا نہ جدل ہے اور نہ حیلہ۔