انہ ................ العلمین (6 5: 08) ” یہ ایک بلند پایہ قرآن ہے۔ ایک محفوظ کتاب میں ثبت جسے مطہرین کے سوا کوئی چھو نہیں سکتا۔ یہ رب العالمین کا نازل کردہ ہے۔ “
فی کتب مکنون (6 5: 87) ” کتاب محفوظ میں۔ “ اور اس کی تفسیر بعد کی آیت کررہی ہے۔
لا یمسہ الا المطھرون (6 5: 97) ” جسے مطہرین کے سوا کوئی چھو نہیں سکتا۔ “ مشرکین کا الزام تھا کہ اسے شیاطین نے نازل کیا ہے۔ یہ ان کے الزام کی تردید ہے کیونکہ شیطان اس کتاب کو مس نہیں کرسکتا جو اللہ کے علم میں ہے اور اس کی حفاظت میں ہے۔ اسے پاک فرشتے لے کر نازل ہوتے ہیں۔
اس آیت کی یہ سب سے اچھی تفسیر ہے کیونکہ (لا) نافیہ ہے یعنی یہ فعل ہو ہی نہیں سکتا۔ یہ ناہیہ نہیں ہے کہ تم ایسا نہ کرو کیونکہ اس دنیا میں پاک اور نجس دونوں قرآن کو چھوتے رہتے ہیں۔ مومن اور کافر بھی چھوتے ہیں لہٰذا اس لحاظ سے نفی متحقق ہی نہیں ہے بلکہ یہ معنی زیادہ قریب ہے اور کفار کے الزام کے جواب میں یہی معنی درست ہے کہ مطہر سے مراد فرشتے ہوں کیونکہ کتب سماوی شیطان کی دسترس سے باہر ہوتی ہیں۔
اور اس کے بعد کی آیت۔
تنزیل ............ العلمین (6 5: 08) ” یہ رب العالمین کی نازل کردہ ہے۔ “ شیاطین کی نازل کردہ نہیں ہے۔ اس کی تائید کرتی ہے۔
اگر مروی احادیث اس کا دوسرا مفہوم بتاتی ہیں کہ قرآن کو کوئی نہ چھوئے مگر پاک شخص لیکن علامہ ابن کثیر نے کہا ہے ” یہ قیمتی نکتہ ہے الزھری نے اس طرح پڑھا ہے لیکن اس تفسیر کو نہیں لینا چاہیے۔ اس حدیث کو درافطنی نے عمر ابن حرم عبداللہ ابن عمر اور عثمان ابن ابوالعاص سے مسند طور پر روایت کیا ہے لیکن اس کی سب سندوں میں کلام کی گنجائش ہے۔ “
اس کے بعد اس سورة کا آخری پیرا آتا ہے۔ یہ عقل وخرد کے تاروں پر آخری مضراب ہے۔ اس میں اس لمحے کا تذکرہ ہے جس کے بارے میں سوچ کر انسان کے اعضاء کانپ جاتے ہیں۔ یہ ہے لمحہ موت جس میں کوئی کلام نہیں ہے اور پھر انسان واپس نہیں آتا ہے نہ اس لمحے سے کوئی بچ سکتا ہے۔