You are reading a tafsir for the group of verses 56:71 to 56:72
اَفَرَءَیْتُمُ
النَّارَ
الَّتِیْ
تُوْرُوْنَ
۟ؕ
ءَاَنْتُمْ
اَنْشَاْتُمْ
شَجَرَتَهَاۤ
اَمْ
نَحْنُ
الْمُنْشِـُٔوْنَ
۟
3

افرءیتم ................ للمقوین (37) (6 5: 17 تا 37) ” کبھی تم نے خیال کیا یہ آگ جو تم سلگاتے ہو ، اس کا درخت تم نے پیدا کیا ہے یا اس کے پیدا کرنے والے ہم ہیں ؟ ہم نے اس کو یاددہانی کا ذریعہ اور حاجت مندوں کے لئے سامان زیست بنایا ہے “

انسان کی زندگی میں آگ کا وجود انسان کے لئے بہت بڑی نعمت ثابت ہوئی اور انسان نے اپنی تہذیبی زندگی کا آغاز ہی آگ سے کیا ہے لیکن صبح وشام آگ جلانا اس کے لئے تو ایک معمول کی بات ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس میں انسان کا کردار کتنا ہے۔ بس انسان آگ جلاتا ہے لیکن جلنے کا عمل کس نے پیدا کیا اور جلنے کے عمل میں استعمال ہونے والا ایندھن کس نے بنایا۔ درخت کس نے پیدا کئے۔ اس کے بارے میں اس سے قبل تفصیلی بات ہم کرچکے ہیں۔ یہاں ” اس کے درخت “ میں ایک اشارہ ہے کہ عرب ایک درخت کی شاخ کو دوسری سے رگڑ کر آگ پیدا کرتے تھے اور یہ وہ طریقہ ہے جو شاید آج بھی پسماندہ علاقوں میں رائج ہے۔ یہ انداز ان کے تجربات میں تھا اس لئے قرآن نے اس طرف اشارہ کردیا۔ رہا آگ کا معجزہ اور سائنس دانوں کے نزدیک اس کا راز تو یہ ایک دوسری اہم بحث ہے اور اس آگ کی مناسبت سے آخرت کی آگ۔