ماں کے پیٹ سے انسان کا پیدا ہونا، زمین سے کھیتی کا اگنا، بادل سے پانی کا برسنا، ایندھن سے آگ کا حاصل ہونا، یہ سب چیزیں براہ راست خدا کی طرف سے ہیں۔ آدمی کو ان کے ملنے پر خدا کا شکر گزار ہونا چاہيے۔ ان کو خدا کا عطیہ سمجھنا چاہيے، نہ کہ اپنے عمل کا نتیجہ۔
ان واقعات میں غور کرنے والے کے لیے بے شمار نصیحتیں ہیں۔ ان میں موجودہ زندگی کے بعد دوسری زندگی کا ثبوت ہے۔ اسی طرح ان میں یہ نشانی ہے کہ جس نے ان کو دیا ہے وہ ان کو چھین بھی سکتا ہے۔ پھر اسی کا ایک نمونہ پانی کا معاملہ ہے۔ پانی کا ذخیرہ سمندروں کی صورت میں ہے جو کہ زیادہ تر کھاری ہیں۔ پانی کا تقریباً 98 فی صد حصہ سمندر میں ہے۔ اور سمندر کے پانی کا 1/10حصہ نمک ہوتا ہے۔ یہ خدا کے قانون کا کرشمہ ہے کہ سمندر سے جب پانی کے بخارات اٹھتے ہیں تو خالص پانی اوپر اڑ جاتا ہے اور نمک نیچے رہ جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بارش کا عمل ازالۂ نمک (Desalination) کا ایک عظیم آفاتی عمل ہے۔ اگر یہ قدرتی اہتمام نہ ہو تو سارا کا سارا پانی ویسا ہی کھاری ہوجائے جیسا سمندر کا پانی ہوتا ہے۔ پہاڑوں پر جمی ہوئی برف اور دریاؤں میں بہنے والا پانی سب کے سب سخت کھاری ہوں، زمین پر پانی کے اتھاہ ذخیروں کے باوجود میٹھے پانی کا حصول انسانیت کے لیے سخت ناقابل حل مسئلہ بن جائے۔ آدمی اگر اس کو سوچے تو اس كاسینہ حمدِ خداوندی کے جذبہ سے بھر جائے گا۔