ءَاَنْتُمْ
تَزْرَعُوْنَهٗۤ
اَمْ
نَحْنُ
الزّٰرِعُوْنَ
۟
3

آیت 64{ ئَ اَنْتُمْ تَزْرَعُوْنَہٗٓ اَمْ نَحْنُ الزّٰرِعُوْنَ } ”کیا تم اسے اگاتے ہو یا ہم اگانے والے ہیں ؟“ یہاں ہماری زبانوں پر بےاختیار یہ الفاظ آجانے چاہئیں : بَلْ اَنْتَ یَارَبِّ ! کہ نہیں ! اے ہمارے پروردگار ! اسے تو ہی اگاتا ہے ‘ اس میں ہمارا کچھ بھی اختیار نہیں ! علامہ اقبال کی نظم اَلْاَرْضُ لِلّٰہ کے درج ذیل اشعار میں ان ہی آیات کے اسلوب اور مضمون کی جھلک نظر آتی ہے : ؎پالتا ہے بیج کو مٹی کی تاریکی میں کون ؟کون دریائوں کی موجوں سے اٹھاتا ہے سحاب ؟کون لایا کھینچ کر پچھم سے باد سازگار ؟خاک یہ کس کی ہے ‘ کس کا ہے یہ نور آفتاب ؟کس نے بھر دی موتیوں سے خوشہ گندم کی جیب ؟موسموں کو کس نے سکھلائی ہے خوئے انقلاب ؟دہ خدایا ! یہ زمین تیری نہیں ‘ تیری نہیں !تیرے آباء کی نہیں ‘ تیری نہیں ‘ میری نہیں !یعنی یہ زمین ‘ یہ کائنات ‘ کائنات کا پورا نظام یہ سب کچھ اللہ ہی کا ہے اور اسی کی قدرت و مشیت سے اس کائنات کا یہ نظام چل رہا ہے۔