افرءیتم ............................ محرومون (76) (6 5:4 6 تا
” کبھی تم نے سوچا ، یہ بیج جو تم بوتے ہو ، ان سے کھیتیاں تم اگاتے ہو یا ان کے اگانے والے ہم ہیں ؟ ہم چاہیں تو ان کھیتوں کو بھس بنا کر رکھ دیں اور تم طرح طرح کی باتیں بناتے رہ جاؤ کہ ہم پر تو الٹی چٹی پڑگئی بلکہ ہمارے تو نصیب ہی پھوٹے ہوئے ہیں۔ “
یہ زرعی پودے ان کے سامنے اگتے ہیں اور اپنی فصل دیتے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس میں ان کا کردار کیا ہے۔ یہ لوگ ہل چلا کر اس میں دانے یا بیچ ڈال دیتے ہیں۔ جسے اللہ نے پیدا کیا۔ اس کے بعد ان کا کردار ختم ہوجاتا ہے اور دست قدرت ان پر عمل پیرا ہوتی ہے اور معجزانہ انداز میں یہ پودا تکمیل کے مراحل طے کرتا ہے۔
یہ بیج یا یہ دانہ اپنی نوع کو دہرانے کا عمل شروع کرتا ہے اور یہ اپنی راہ اس طرح طے کرتا ہے کہ گویا یہ عقلمند اور خبردار چیز ہے اور اپنی راہ پر سیدھا سیدھا گامزن ہے اور مراحل طے کر رہا ہے۔ انسان تو اپنے کام میں غلطی کرسکتا ہے لیکن یہ بیج کوئی غلطی نہیں کرتا۔ یہ اس طریق کار کے مطابق کام کرتا ہے جو اللہ نے اس کے لئے وضع کیا ہے۔ وہ کبھی اپنے مقررہ ہدف کو خطا نہیں کرتا کیونکہ اسے دست قدرت چلارہی ہوتی ہے اور یہ ایک عجیب سفر ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسا سفر ہے کہ اگر روز وشب ہمارے سامنے دہرایا نہ جاتا تو عقل اس کی تصدیق نہ کرتی اور جہان اس کا تصور نہ کرسکتا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو کون سی عقل یہ باور کرسکتی ہے کہ گندم کے اس چھوٹے سے دانہ میں ڈالی پتے اور دانے سب کچھ موجود ہیں یا کھجور کی گٹھلی میں اس قدر بلند درخت موجود ہے۔
اگر یہ چیزیں ہمارے سامنے رات دن دہرائی نہ جاتیں تو عقل انہیں تسلیم نہ کرتی اور کوئی خیال ان چیزوں کی طرف کاتا ہی نہیں لیکن چونکہ سب لوگوں کے سامنے یہ قصہ دہرایا جاتا ہے اور یہ سفر صبح وشام طے ہوتا رہتا ہے اس لئے لوگ اسے مانتے ہیں اور کون ہے جو یہ دعویٰ کرتا ہو کہ ماسوائے دانہ بونے کے اس کا اس عمل میں کوئی اور کردار ہے۔
لوگ کہتے ہیں ہم نے فصل اگائی اور ہم نے اتنی پروڈکشن دی حالانکہ ان سب امور میں ان کا کردار بہت ہی محدود ہے۔ رہا وہ پورا عمل جو بیج یا دانہ طے کرتا ہے اور وہ معجزہ کہ ایک چھوٹے سے بیج کے قلب سے ایک عظیم درخت وجود میں آتا ہے تو یہ تو سب کچھ خالق کی صفت ہے۔ اگر ایسا اللہ نہ چاہتا تو کوئی دانہ یہ معجزہ نہ دکھاتا۔ یہ قصہ یوں سرے تک نہ پہنچتا اور اگر اللہ چاہتا تو قبل اس کے کہ دانہ دے اسے بھس بنا دیتا ۔ یہ تو اللہ کی مشیت ہے۔
اگر ایسا ہوتا تو لوگ اس پر عبرتناک تبصرے کرتے۔ انالمغرمون (ہم پر تو چٹی چڑھ گئی) نقصان ہوگیا بلکہ یہ کہیں بل نحن محرومون (بلکہ ہم تو محروم اور بدنصیب ہیں) لیکن یہ اللہ کا فضل کہ وہ ان کو پھل دیتا ہے اور یہ دانے دورہ مکمل کرتے ہیں۔ انسانی زندگی بھی ایسی ہی ہے۔ انسانی خلیہ بھی یہی کرتا ہے۔ اسی طرح اللہ کی قدرت انسان پیدا کرتی ہے۔ کیا مشکل ہے کہ دوبارہ اللہ اسی زمین سے انسان کو برآمد نہیں کرسکتا ........ آخرت کی دوبارہ پیدائش میں آخر کیا چیز تمہیں انوکھی لگتی ہے۔