وَلَقَدْ
عَلِمْتُمُ
النَّشْاَةَ
الْاُوْلٰی
فَلَوْلَا
تَذَكَّرُوْنَ
۟
3

آیت 62{ وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ النَّشْاَۃَ الْاُوْلٰی } ”اور تم اپنی پہلی زندگی کے بارے میں تو جانتے ہی ہو“ یعنی اپنی دنیوی تخلیق سے متعلق تمام مراحل کے بارے میں تو تم جانتے ہو۔ انسانی تخلیق کے مختلف مراحل کا ذکر قرآن مجید میں تکرار کے ساتھ آیا ہے۔ لیکن جیسا کہ قبل ازیں بھی ذکر ہوچکا ہے ‘ سورة المومنون کی یہ آیات اس موضوع پر قرآن کے ذروئہ سنام کا درجہ رکھتی ہیں :{ وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰلَۃٍ مِّنْ طِیْنٍ - ثُمَّ جَعَلْنٰـہُ نُطْفَۃً فِیْ قَرَارٍ مَّکِیْنٍ - ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَۃَ عِظٰمًا فَکَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْمًاق ثُمَّ اَنْشَاْنٰــہُ خَلْقًا اٰخَرَط فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَ }”ہم نے پیدا کیا انسان کو مٹی کے خلاصے سے۔ پھر ہم نے اسے بوند کی شکل میں ایک محفوظ ٹھکانے میں رکھا۔ پھر ہم نے اس نطفہ کو علقہ کی شکل دے دی ‘ پھر علقہ کو ہم نے گوشت کا لوتھڑا بنا دیا۔ پھر ہم نے گوشت کے اس لوتھڑے کے اندر ہڈیاں پیدا کیں ‘ پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا ‘ پھر ہم نے اسے ایک اور ہی تخلیق پر اٹھا دیا۔ پس بڑا با برکت ہے اللہ ‘ تمام تخلیق کرنے والوں میں بہترین تخلیق کرنے و الا۔“تو جب اس حیرت انگیز اور پیچیدہ تخلیقی عمل کے مختلف مراحل تمہارے علم اور مشاہدے میں آ چکے ہیں : { فَلَوْلَا تَذَکَّرُوْنَ۔ } ”تو پھر تم سمجھتے کیوں نہیں ہو ؟“ تم عقل سے کام کیوں نہیں لیتے ؟ تم اس سے نصیحت اور یاددہانی کیوں اخذ نہیں کرتے ؟۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور صناعی کے ان مظاہر کا ادراک کرلینے کے بعد بھی تمہیں یہ بات کیوں سمجھ میں نہیں آتی کہ جس اللہ نے اس عمل سے گزار کر ہمیں ابتدا میں پیدا کیا ہے وہ دوبارہ بھی ہمیں پیدا کرسکتا ہے ؟ آئندہ آیات میں اللہ تعالیٰ کی خلاقی کی چند اور مثالیں بیان کی جا رہی ہیں :