ءَاَنْتُمْ
تَخْلُقُوْنَهٗۤ
اَمْ
نَحْنُ
الْخٰلِقُوْنَ
۟
3

آیت 59{ ئَ اَنْتُمْ تَخْلُقُوْنَہٓٗ اَمْ نَحْنُ الْخٰلِقُوْنَ۔ } ”کیا اس کی تخلیق تم کرتے ہو یا ہم تخلیق کرنے والے ہیں ؟“ تم تو پانی کی وہ بوند ٹپکا کر فارغ ہوجاتے ہو۔ اس کے بعد رحم مادر میں ایک حیرت انگیز تخلیقی عمل کا آغاز ہوجاتا ہے۔ وہ نطفہ علقہ میں تبدیل ہوتا ہے ‘ علقہ سے مغضہ بنتا ہے۔ پھر ہڈیاں بنتی ہیں ‘ جوڑ بند درست ہوتے ہیں ‘ آنکھوں ‘ کانوں اور دوسرے اعضاء کا نقشہ تیار ہوتا ہے اور یہ سارا عمل تین پردوں { فِیْ ظُلُمٰتٍ ثَلٰـثٍط } الزمر : 6 کے اندر پایہ تکمیل کو پہنچتا ہے۔ کیا اس سارے عمل میں تمہارا بھی کوئی حصہ ہے ؟ ماں کے پیٹ میں مختلف پیچیدہ تخلیقی مراحل سے گزرتے ہوئے بچے کے کسی عضو کے بنانے میں کیا کوئی تمہارا کردار بھی ہے ؟ یا اس کی تذکیر و تانیث میں تمہارا کچھ اختیار ہے ؟ ظاہر ہے اس پورے تخلیقی عمل میں تمہارا حصہ یا کردار بالکل نہیں ہے ‘ اور تم تسلیم کرتے ہو کہ نہیں ہے ‘ تو پھر اس حقیقت کو قبول کیوں نہیں کرلیتے ہو کہ یہ سب کچھ اللہ کی مرضی و منشاء اور صناعی و خلاقی کا مظہر ہے۔ جب ہم ان آیات کی تلاوت کریں تو ہر سوال کے جواب میں عجز و انکساری سے عرض کرنا چاہیے : بَلْ اَنْتَ یَارَبِّ ! کہ اے میرے پروردگار ! یہ سب تیری کاریگری ‘ تیری صناعی اور تیری خلاقی کا مظہر ہے ‘ اس میں سے ہمارے بس میں کچھ بھی نہیں۔ تفسیر عثمانی کے مطابق بعض روایات کی بنا پر علماء نے یہ مستحب سمجھا ہے۔