You are reading a tafsir for the group of verses 56:58 to 56:59
اَفَرَءَیْتُمْ
مَّا
تُمْنُوْنَ
۟ؕ
ءَاَنْتُمْ
تَخْلُقُوْنَهٗۤ
اَمْ
نَحْنُ
الْخٰلِقُوْنَ
۟
3

افرءیتم ................ الخلقون (6 5: 9 5) ” کبھی تم نے غور کیا ، یہ نطفہ جو تم ڈالتے ہو ، اس سے بچہ تم بناتے ہو یا اس کے بنانے والے ہم ہیں “ تخلیق یا تناسل میں انسان کا کردار یہی ہے کہ وہ نطفہ رحم زوجہ میں ڈال دے۔ پھر دونوں کا کردار ختم ہوجاتا ہے۔ (ٹیوب بےبی نے یہ بھی ختم کردیا ہے) اب یہ کمزور پانی رب تعالیٰ کے زیر نگرانی کام کرتا ہے۔ صرف دست قدرت اس کی تخلیق اور تربیت اور بڑھو تری میں کام کرتا ہے۔ اس کو شکل دیتا ہے ۔ روح دیتا ہے اور پہلے لحظہ سے لے کر تمام مراحل معجزات ہی معجزات ہیں۔ ہر مرحلے میں ایسا خارق العادت معجزہ رونما ہوتا ہے جس میں اللہ کے سوا کسی کا کوئی کردار نہیں۔ بشر تو آج تک اسی طریقہ تخلیق وتناسل کی حقیقت تک بھی نہیں پہنچ سکا۔ وہ تو یہ بھی نہیں جانتے کہ یہ معجزہ کیسے ہوتا ہے۔ اس میں ان کی شرکت کا تو تصور بھی نہیں ؟

اس قدر سوچ تو ہر انسان کو حاصل ہوتی ہے اور اس معجزے کو سمجھنے اور اس سے متاثر ہونے کے لئے اسی قدر کافی ہے لیکن اس خلیے کا اس قدر قصہ کہ جب یہ نطفہ رحم مادر میں رکھا گیا اور اس سے ایک مکمل انسان بن گیا۔ یہ کہانی تخیلات سے بھی زیادہ عجیب ہے۔ اگر یہ قصہ عملاً وقوع پذیر نہ ہوتا رہتا اور یہ انسان اسے شب وروز دیکھتا نہ رہتا تو عقل انسانی کبھی اس کی تصدیق نہ کرتی۔

یہ خلیہ پھر تقسیم ہونا شروع ہوتا ہے۔ پھر بڑھتا رہتا ہے اور تھوڑا ہی عرصہ گزرتا ہے کہ اس ایک خلیے کی جگہ کئی ملین خلیے نمودار ہوجاتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک خلیہ دوسرے خلیوں سے ممتاز خصوصیات رکھتا ہے کیونکہ ان میں سے ہر ایک خلیہ ایک خاص پہلو تخلیق کرتا ہے۔ بعض ہڈیوں کے خلیے ہوتے ہیں۔ بعض عضلات کے خلیے ہوتے ہیں۔ بعض جلدی خلیات ہوتے ہیں۔ ان خلیوں سے آنکھیں بنتی ہیں۔ ان خلیوں سے زبان بنتی ہے اور ان خلیوں سے غدود بنتے ہیں۔ غدودوں کے خلیے زیادہ مخصوص نوعیت رکھتے ہیں۔ ہر خلیہ جانتا ہے کہ اس نے کہاں جاکر کام کرنا ہے۔ مثلاً آنکھ کے خلیے غلطی سے پیٹ میں یا پاؤں میں نہیں چلے جاتے لیکن اگر ان کو مصنوعی طور پر پشت کے اوپر لے جایا جائے تو یہ وہاں آنکھ بنادیں گے لیکن ان کو اللہ کی طرف سے جو حکم اور الہام ہوتا ہے وہ آنکھ ہی کی جگہ مجتمع ہوتے ہیں اور وہیں آنکھ بناتے ہیں۔ اسی طرح کان کے خلیے پاؤں میں نہیں جاتے تاکہ وہاں جاکر وہ کان بنادیں۔ یہ سب خلیے اللہ کے حکم اور الہام کے مطابق اس انسان کو بہترین تقدیم اور نقشے کے مطابق بناتے ہیں۔ ان کی نظروں کے نیچے اور اس تشکیل میں انسان کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔

یہ ہے انسان کی ابتدائ، رہی انسان کی انتہا تو وہ بھی اس سے زیادہ عجیب و غریب ہے۔ اگرچہ انسان اسے روز دیکھتے دیکھتے اس سے اثر نہیں لیتا۔