هٰذَا
نُزُلُهُمْ
یَوْمَ
الدِّیْنِ
۟ؕ
3

ھذا ................ الدین (6 5: 6 5) ” یہ ہے ان کا سامان ضیافت روز جزا میں۔ “ حالانکہ قیام ونزول راحت اور آرام کے لئے ہوتا ہے لیکن اصحاب الشمال کا نزول اجلال جہنم میں ایسا ہوگا جس میں نہ راحت ہوگی اور نہ قرار ہوگا۔ یہ ہے ان کی ضیافت اس دن کی جس کے بارے میں وہ شک میں پڑے ہوئے تھے۔ اس کے بارے میں پوچھتے رہتے تھے اور قرآن کی تصدیق کرنے کے لئے تیار نہ تھے۔ دوسری طرف شرک بھی کرتے تھے اور اس دن کے ڈراوے سے بھی نہ ڈرتے تھے۔

یہاں آکر سب فریقوں کا انجام ختم ہوجاتا ہے جبکہ یہ عظیم واقعہ ہوگا جو اوپر نیچے کردینے والا ہوگا اور اس پر اس سورة کا پہلا دور ختم ہوتا ہے۔

رہا دوسرا دور تو اس میں اسلامی نظریہ حیات کو مکمل طور پر لیا گیا ہے۔ اگرچہ اس میں واضح پہلو قضیہ حشر ونشر ہی ہے۔ اس دوسرے دور سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن انسانی فطرت کو کس خوبصورتی کے ساتھ خطاب کرتا ہے۔ دلائل کس طرح بیان کرتا ہے اور کس قدر سادگی کے ساتھ لوگوں کی نفسیات کے اندر اتر جاتا ہے حالانکہ موضوع سخن نظریات وفلاسفی کے اعلیٰ مضامین ہوتے ہیں۔

قرآن کا کمال یہ ہے کہ وہ آسمانوں کے ان امور سے جو روٹین میں چلتے رہتے ہیں ، ایسے نکات اخذ کرتا ہے جو کائنات کا عظیم مسئلہ قرار پاتے ہیں۔ وہ پا افتادہ حقائق ومناظر سے نوامیس فطرت اخذ کرتا ہے۔ ان سے ایک نظریہ حیات تشکیل کرتا ہے اور ان واقعات کو مرکز فکر ونظر بنا دیتا ہے جن سے روحانی زندگی میں ترقی و شعور کی بیداری ، حواس کی تیزی پیدا ہوتی ہے اور جن مظاہر کو انسان رات اور دن دیکھتے ہیں اور ان پر سے غافلوں کی طرح گزر جاتے ہیں ، ان کے بارے میں انسانی شعور کو پیدا کرتا ہے اور انسان کو بتاتا ہے کہ تم تو معجزات کے اندر ڈوبے ہوئے ہو جو تمہارے ارد گرد رات دن ہوتے رہتے ہیں۔

قرآن لوگوں کو چند محدود معجزات کے حوالے نہیں کرتا جو کسی محدود زمان ومکان کے اندر پائے گئے ہوں بلکہ وہ خود ان کے نفس میں معجزات ان کو دکھاتا ہے۔ ان کے ماحول میں پائے جانے والے معمول کے واقعات میں سے معجزات تلاش کرلیتا ہے۔ ان کے قریب جو کائناتی مظاہر ہیں۔ ان سے دوران کو نہیں لے جاتا کہ وہ انہیں پیچیدہ فلاسفی میں الجھاتا ہے یا محض عقلی فرائض پر کلام کرتا ہے یا ان سے سائنسی تجربات کا مطالبہ کرتا ہے جو ہر شخص نہیں کرسکتا۔ اسلام کوئی ایسا فلسفہ البیات لوگوں کے لئے نہیں تجویز کرتا۔ قرآن کا انداز مختلف ہے۔

لوگوں کے نفوس اللہ کے پیدا کردہ ہیں۔ لوگوں کے ارد گردجو مظاہر فطرت ہیں وہ بھی اللہ کے پیدا کردہ ہیں۔ اللہ نے اس جہاں میں جو جو چیز پیدا کی ہے ، وہ معجزہ ہے۔ یہ اللہ کا قرآن ہے۔ اس لئے وہ انہیں انہی معجزات کی طرف لے جاتا ہے جو ان کی ذات میں ہیں۔ جو ان کے ماحول میں ہیں۔ وہ ایسے معجزات ان کو سمجھاتا ہے جن کو وہ رات دن دیکھتے رہتے ہیں۔ وہ ان کو دیکھتے ہیں لیکن ان مظاہر کا اعجاز پہلوان کی نظروں سے اوجھل ہے کیونکہ راتدن انہوں نے اس عمل کو دیکھتے دیکھتے اسے ایک معمول کا عمل سمجھ لیا ہے۔ قرآن انہی واقعات کے بارے میں ان کی آنکھیں کھولتا ہے۔ بتاتا ہے ان سب قدرت الیہ کا راز کیا ہے۔ ان کے اندر کس قدر وحدت پائی جاتی ہے اور کس طرح یہ قدرت الٰہیہ تمہارے نفسوں میں کام کررہی ہے جس طرح اس کائنات کے اندر کام کررہی ہے جو ان کے ماحول میں ہے جس کے اندر دلائل ایمان ، براہین حقیقت موجود ہیں۔ اس طرح اسلام ان چیزوں کو انسان کی فطرت کے سامنے کھولتا ہے اور ان کی فطرت کو جگاتا ہے۔

قرآن کریم اس سبق میں یہی انداز اختیار کرتا ہے۔ سب سے پہلے ان کے سامنے وہ دلائل اعجاز پیش کئے جاتے ہیں جو خود ان کی تخلیق میں ہیں۔ پھر وہ جو ان کے فصلوں میں ہیں جن کو وہ رات دن بوتے ہیں جو پانی وہ پیتے ہیں کیا یہ کم اعجاز ہے۔ یہ آگ جو وہ جلاتے ہیں۔ یہ آگ تو صبح وشام تمہارے چولہوں میں جلتی ہے پھر تمہارے سامنے تمہارے رشتہ داروں کی اموات ہوتی ہیں۔ یہ عالم آخرت کے سفر پر جاتے ہیں۔ ہر شخص کو یہ وقت پیش آنا ہے اور ہر زندہ کو قدرت قادرہ کے سامنے کھڑا ہونا ہے جس سے کوئی فرار ممکن نہیں ہے۔ تمام حیلے اور تمام بہانے ختم ہوجاتے ہیں۔

قرآن نے جس انداز سے فطرت سے خطاب کیا ہے یہ انداز بذات خود دلائل اعجاز میں سے ہے کہ قرآن خالق کی طرف سے ہے۔ قرآن کا سرچشمہ وہی ہے جس سے یہ کائنات صادر ہوئی چناچہ قرآن دنیا کی زندگی کے سادہ مظاہر اور اشکال سے عظیم حقائق نکال کر فطری آواز میں انسان کے سامنے رکھ دیتا ہے۔ ایک ذرہ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ پوری کائنات کی پہلی اکائی ہے اور خلیہ جو زندگی کا پہلا مادہ ہوتا ہے۔ ذرہ بذات خود معجزہ ہے اور خلیہ حیات بذات خود معجزہ ہے۔ یہاں قرآن کریم نہایت ہی سادہ مظاہرے سے دینی عقائد اخذ کرتا ہے۔ ایسے مظاہر سے جو ہر انسان کے تجربے میں ہوتے ہیں۔ نسل انسانی ، زراعت ، پانی ، آگ ، موت ہر انسان ان اشیاء کے ساتھ عملی معاملہ رکھتا ہے۔ غار کے رہنے والے بھی جنین کی زندگی سے واقف ہیں اور تھے۔ نباتات کے اگنے سے واقف تھے۔ بارش سے واقف تھے۔ آگ جلاتے تھے اور موت کی گھڑی ان پر آتی تھی۔ ان مشاہد کے میٹریل سے قرآن ایک عظیم الہیاتی عقیدہ اور نظریہ اور فلسفہ تشکیل دیتا ہے۔ اس لئے کہ قرآن ہر انسان کی کتاب ہے اور یہ مشاہدات وہ ہیں جن سے ہر انسان دو چار ہوتا ہے۔ یہ عظیم کائناتی حقائق ہیں لیکن پیش پا افتادیہ اعلیٰ اسرار ہیں لیکن ہر شخص کے سامنے کھلے ، اس پوری بحث میں ایک اشارہ دور رس بھی ہے وہ ہے ستارے کے محل وقوع کی طرف جو مطالعہ فطرت کا موضوع ہے اور ایک عام انسان اور ایک بہت بڑے سائنس داں مواقع النجوم کا مشاہدہ کرتے ہیں۔

مواقع النجوم سے مراد کائنات کی انجینئرنگ ہے اور یہ بہت بڑا راز بھی ہے اور پیش پا افتادہ بھی ہے۔ پھر حیاتیات ونباتات دونوں معجزات ہیں۔ پھر پانی تو اصل حیات ہے اور آگ اور اب بجلی تو تہذیب کی پہلی علامت ہے۔

موجود اور منظور چیزوں کو اس انداز سے دیکھنا مطالعہ کرنا اور ان سے فکر و عقیدہ اور نظریہ ونظام اخذ کرنا انسان کا طریقہ علم وتعلیم نہیں رہا ہے۔ انسانوں نے جب بھی ان مسائل پر بحث کی ہے انہوں نے ان کائناتی مواد اور مظاہر کو سامنے کبھی نہیں رکھا ہے اور جب انہوں نے کبھی اسے دیکھنے کی کوشش بھی کی ہے تو اسے پیچیدہ بنا دیا ہے اور اس قدر سادگی سے نہیں لیا جس طرح قرآن نے لیا ہے بلکہ انسان نے ان سادہ مظاہر کو بھی ایک پیچیدہ فلسفیانہ مسئلہ بنا کر اسے چیستان بنا دیا ہے اور دنیا کے عوام کو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

لیکن اللہ نے اپنی کتاب میں ایک فطری انداز اختیار کیا ہے یعنی اونچے مسائل کے لئے بھی ایسا میٹریل استعمال کیا جو عوام کے لئے قابل فہم ہو جس سے جو نتائج بھی اخذ کئے گئے وہ لوگوں کے لئے قریب الفہم ہوگئے جس طرح اللہ نے اس کائنات کی تخلیق کے اندر حیاتیاتی تسلسل نہایت سہولت سے قائم کیا ہے اسی طرح اس کائنات سے سادہ انداز میں الہ العلمین کو ثابت کیا ہے ، ذرا ملاحظہ فرمائیں۔