آیت 56{ ہٰذَا نُزُلُہُمْ یَوْمَ الدِّیْنِ۔ } ”یہ ہوگی ان کی ابتدائی ضیافت جزا کے دن۔“ یہاں پر ان تینوں گروہوں کا بیان مکمل ہوگیا۔ یاد رہے کہ سورة الرحمن میں جہنم اور جنت کے حوالے سے ان تینوں گروہوں کا تذکرہ سورة کے آخر میں آیا تھا ‘ جبکہ یہاں ان کا ذکر سورت کے آغاز میں آیا ہے۔ یعنی دونوں سورتوں کے مضامین معکوس ترتیب سے بیان ہوئے ہیں۔ اسی عکسی ترتیب کے تحت اب سورت کے دسرے رکوع میں وہ مضمون آ رہا ہے جو سورة الرحمن کے پہلے رکوع میں بیان ہوا ہے۔ سورة الرحمن کے آغاز میں اللہ تعالیٰ کی خلاقی اور صناعی کا ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان بنائے ‘ زمین بنائی ‘ زمین میں دریا چلائے ‘ سمندر پھیلائے۔ دریائوں اور سمندروں کی تہوں میں عجیب و غریب قسم کے موتی اور مونگے پیدا کیے اور پہاڑوں جیسے بڑے بڑے جہازوں کا پانی کی سطح پر تیرنا ممکن بنایا۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کی شان اور اس کی قدرتوں کے مظاہر ہیں۔ چناچہ اسی انداز سے یہاں اس سورت میں بھی اللہ تعالیٰ کی قدرتوں اور صناعی کا ذکر ہونے جا رہا ہے ‘ لیکن پے درپے سوالات کے ساتھ بہت ہی خوبصورت اور موثر انداز میں :