لَاٰكِلُوْنَ
مِنْ
شَجَرٍ
مِّنْ
زَقُّوْمٍ
۟ۙ
3

آیت 52{ لَاٰکِلُوْنَ مِنْ شَجَرٍ مِّنْ زَقُّوْمٍ۔ } ”ضرور کھائو گے زقوم کے درخت سے۔“ تم بھٹکے ہوئے تھے ‘ ہم نے تمہاری راہنمائی کے لیے اپنا رسول ﷺ بھیجا ‘ کتاب ہدایت بھیجی : { تَـبْصِرَۃً وَّذِکْرٰی لِکُلِّ عَبْدٍ مُّنِیْبٍ۔ } قٓ یہ سب کچھ تمہاری آنکھیں کھولنے کے لیے تھا۔ لیکن اس کے باوجود تم نے ہمارے رسول ﷺ کو بھی جھٹلادیا ‘ ہماری کتاب کی بھی تکذیب کی اور گمراہ رہنے کو ہی ترجیح دی۔ تو اے بھٹکے ہوئے اور ہماری ہدایت کو جھٹلانے والے لوگو ! اب جہنم کے اندر تمہاری ضیافت زقوم کے درخت سے ہی کی جائے گی۔ 1 1 زقوم کے حوالے سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لَـوْ اَنَّ قَطْرَۃً مِنَ الزَّقُّوْمِ قُطِرَتْ فِیْ دَارِ الدُّنْیَا لَاَفْسَدَتْ عَلٰی اَھْلِ الدُّنْیَا مَعَایِشَھُمْ فَکَیْفَ بِمَنْ یَکُوْنُ طَعَامَہٗ سنن الترمذی ‘ ابواب صفۃ جھنم ‘ باب ما جاء فی صفۃ شراب اھل النار”اگر زقوم کا ایک قطرہ بھی دنیا میں ٹپکا دیا جائے تو دنیا والوں کے لیے ان کی زندگی برباد کر دے ‘ تو پھر ان لوگوں کا کیا حال ہوگا جن کی غذا ہی یہی ہوگی !“ ”زقوم“ صحرائے عرب کا ایک درخت ہے ‘ جس کے بارے میں مولانا مودودی رح نے لکھا ہے :”زقوم ایک قسم کا درخت ہے جو تہامہ کے علاقے میں ہوتا ہے۔ مزہ اس کا تلخ ہوتا ہے ‘ بو ناگوار ہوتی ہے اور توڑنے پر اس میں سے دودھ کا سا رس نکلتا ہے جو اگر جسم کو لگ جائے تو ورم ہوجاتا ہے۔ غالباً یہ وہی چیز ہے جسے ہمارے ملک میں تھوہر کہتے ہیں۔“ تفہیم القرآن ‘ جلد 4 ‘ ص 289اس کے بارے میں مفتی محمد شفیع رح رقم طراز ہیں :”بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح سانپ بچھو وغیرہ دنیا میں بھی ہوتے ہیں اسی طرح دوزخ میں بھی ہوتے ہیں ‘ لیکن دوزخ کے سانپ بچھو یہاں کے سانپ بچھوئوں سے کہیں زیادہ خوفناک ہوں گے ‘ اسی طرح دوزخ کا زقوم بھی اپنی جنس کے لحاظ سے تو دنیا ہی کے زقوم کی طرح ہوگا ‘ لیکن یہاں کے زقوم سے کہیں زیادہ کریہہ المنظر اور کھانے میں کہیں زیادہ تکلیف دہ ہوگا ‘ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم !“ معارف القرآن ‘ جلد 7 ‘ ص 241