You are reading a tafsir for the group of verses 30:9 to 30:10
اَوَلَمْ
یَسِیْرُوْا
فِی
الْاَرْضِ
فَیَنْظُرُوْا
كَیْفَ
كَانَ
عَاقِبَةُ
الَّذِیْنَ
مِنْ
قَبْلِهِمْ ؕ
كَانُوْۤا
اَشَدَّ
مِنْهُمْ
قُوَّةً
وَّاَثَارُوا
الْاَرْضَ
وَعَمَرُوْهَاۤ
اَكْثَرَ
مِمَّا
عَمَرُوْهَا
وَجَآءَتْهُمْ
رُسُلُهُمْ
بِالْبَیِّنٰتِ ؕ
فَمَا
كَانَ
اللّٰهُ
لِیَظْلِمَهُمْ
وَلٰكِنْ
كَانُوْۤا
اَنْفُسَهُمْ
یَظْلِمُوْنَ
۟ؕ
ثُمَّ
كَانَ
عَاقِبَةَ
الَّذِیْنَ
اَسَآءُوا
السُّوْٓاٰۤی
اَنْ
كَذَّبُوْا
بِاٰیٰتِ
اللّٰهِ
وَكَانُوْا
بِهَا
یَسْتَهْزِءُوْنَ
۟۠
3

اولم یسیروا ۔۔۔۔۔ وکانوا بھا یستھزءون (9- 10)

ان آیات میں ہمیں دعوت دی جاتی ہے کہ گزرنے والوں کا جو انجام ہوا ، ذرا اس پر بھی غور کرو ، یہ بھی تو تمہاری ہی کی طرح کے انسان تھے۔ اسی طرح اللہ کی مخلوق تھے جس طرح تم ہو۔ ان کا انجام تمہارے لیے ایک نمونہ ہے۔ کیونکہ اللہ کی سنت تمام انسانوں کیلئے یکساں ہے۔ اللہ کی سنت انسانی تاریخ کے بارے میں بھی اسی طرح اٹل ہے جس طرح اس کائنات کے بارے میں اٹل ہے۔ اللہ کا انسانوں کی کسی نسل کے ساتھ کوئی مخصوص تعلق نہیں ہے کہ ان کے ساتھ کوئی ممتاز سلوک کرے۔ نہ اللہ کی کچھ خواہشات ہیں جو زمان و مکان کے ساتھ بدلتی رہتی ہیں۔ معاذ اللہ رب العالمین

یہ اس بات کی دعوت ہے کہ اس زندگی کی حقیقت کو اچھی طرح سمجھا جائے اور اس پر غور کیا جائے کہ انسانی زندگی کے اس جہاں میں جو روابط تعلقات ہیں ان کی حقیقت کیا ہے اور گذشتہ تاریخ میں اس انسانیت کی تخلیق اور اس کا انجام کیا رہا ہے تاکہ انسانوں کا کوئی گروہ اور نسل صرف اپنی زندگی ، اپنے تصورات اور اپنی اقدار تک محدود نہ ہوجائے۔ تمام نسلوں کے درمیان جو مضبوط رشتہ ہے اس سے غافل نہ ہوجائے اور اس سنت کو بھی نہ بھول جائے جو تمام نسلوں پر حکمران ہے۔ اور ان قدروں کو بھی نہ بھول جائے جو ہر زمان و مکان میں ایک ہوتی ہیں۔

تاریخ ماضی میں جو اقوام ہو گزری ہیں اور جو اہل مکہ سے پہلے ہوگزری ہیں۔ وہ اہل مکہ سے۔

کانوا اشد منھم قوۃ (30: 9) ” وہ ان سے زیادہ طاقت رکھتے تھے “۔

واثاروا الارض (30: 9) ” انہوں نے زمین کو خوب ادھیڑا تھا “۔ انہوں نے اس میں کھیتی باڑی کا کام بھی کیا اور اس کے باطن کو پھاڑا اور اس کے ذخائر کو نکالا۔

وعمرواھا اکثر مما عمروھا (30: 9) ” اور انہوں نے اسے اتنا آباد کیا تھا جتنا انہوں نے نہیں کیا “۔ وہ لوگ عربوں سے زیادہ متمدن اور ترقی یافتہ تھے اور عربوں سے زیادہ زمین کے اندر تعمیرات کرنے والے تھے۔ یہ لوگ اس دنیا کی ظاہری ترقی اور خوبصورتی پر ہی اکتفاء کر گئے اور آخرت کی طرف نگاہ نہ ڈالی۔

وجاءتھم رسلھم بالبینت (30: 9) ” ان کے پاس ان کے رسول روشن نشانیاں لے کر آئے “۔ لیکن ان روشن

نشانیوں کو دیکھ کر بھی ان کی آنکھیں نہ کھلیں اور یہ لوگ اس نور پر ایمان نہ لائے جو ان کو صحیح راستہ دکھا رہا تھا۔ چناچہ ان پر اللہ کی اس سنت کا اطلاق ہوگیا جو ہمیشہ مکذبین پر نافذ ہوتی ہے ۔ عذاب الٰہی کے مقابلے میں ان کی قوت ان کے کچھ کام نہ آئی۔ ان کا علم اور ان کی ترقی ان کے کچھ کام نہ آئی۔ اور ان کو ان کی وہ سزا و جزاء ملی جس کے وہ مستحق تھے۔

فما کا اللہ ۔۔۔۔ یظلمون (30: 9) ” پھر اللہ ان پر ظلم کرنے والا نہ تھا مگر وہ خود ہی اپنے اپور ظلم کر رہے تھے “۔

ثم کان ۔۔۔۔ السواء (30: 10) ” آخر کار جن لوگوں نے برائیاں کی تھیں ان کا انجام بہت ہی برا ہوا “۔ یعنی وہ لوگ جو برائیوں کا ارتکاب کرتے تھے ، ان برائیوں کے مطابق پوری پوری سزا اور جزاء ان کو دے دی گئی اور ان کی برائی کیا تھی ؟ یہ کہ ، ان کذبوا بایت اللہ وکانوا بھا یستھزءون (30: 10) ” اس لیے کہ انہوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلایا تھا اور ان کا مذاق اڑاتے تھے “۔

قرآن کریم تکذیب کرنے والوں اور مزاح اڑانے والوں کو یہ دعوت دیتا ہے کہ وہ ذرا خدا کی اسی زمین پر چلیں پھریں اور گھونگھے کی طرح اپنے خول ہی میں بند نہ رہیں۔ انسانی تاریخ کو بھی ذرا پڑھیں کہ آپ جیسے مکذبین اور مزاح کرنے والوں کا انجام کیا ہوتا رہا ہے۔ کہیں ایس انہ ہو کہ تمہارا انجام بھی ان جیسا ہو۔ اللہ کی سنت اٹل ہے اور وہ کسی کے ساتھ رعایت نہیں کرتی۔ وہ ذرا اپنی سوچ اور فکر کو وسعت دیں۔ پوری انسانیت کو ایک وحدت سمجھیں انبیاء کی دعوت کو ایک سمجھیں۔ اور یہ یقین کرلیں کہ اللہ کے قوانین قدرت کے مطابق تمام لوگوں کا انجام ایک ہی جیسا ہوتا ہے۔ یہ ہے وہ تصور جس میں اسلام تمام مومنین کے فکر و نظر کو رنگنا چاہتا ہے اور اس پر بار بار زور دیتا ہے۔

اس پوری کائنات کی گہرائیوں کے مطابق اور انسانی تاریخ کے گہرے مطالعے کے بعد اب قرآن کریم انسان کو اس میدان میں لے جاتا ہے جس سے انسان ہمیشہ غافل رہتا ہے۔ یعنی بعث بعد الموت کے میدان میں۔ یہ اس عظیم سچائی کا ایک اہم عنصر ہے جس کے اوپر یہ پوری کائنات قائم ہے۔