اولم یتفکروا ۔۔۔۔۔ ربھم لکفرون (8) ” “۔ کیا یہ لوگ سوچتے نہیں کہ خود ان کی ساخت اور ان کی تخلیق اور ان کے اردگرد موجود یہ وسیع کائنات اس بات پر گواہ ہیں کہ یہ وجود ایک سچائی پر قائم ہے۔ ایک ایسے اٹل ناموس فطرت کے مطابق رواں دواں ہے جس کے اندر کوئی اضطراب نہیں ہے۔ یہ نہیں ہوتا ہے کہ یہ کائنات کبھی ادھر ڈھلک گئی اور کبھی ادھر۔ نہ اس کی گردش میں فرق آتا ہے ، نہ اجرام فلکی میں تصادم ہوتا ہے اور نہ اس کی حرکت کوئی غیر مرتب اندھی حرکت ہے۔ نہ یہ حرکت بدلتی ہوئی خواہشات کے مطابق بدلتی ہے۔ بلکہ یہ حرکت نہایت ہی گہری ، دقیق اور حکیمانہ نظام کے مطابق چل رہی ہے۔ یہ سچائی جس کے مطابق انسانی زندگی اور یہ وسیع کائنات چل رہی ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ اس جہان کا کوئی انجام ہو ، جہاں جزاء و سزا پوری ہو سکے۔ جہاں خیر اور شر دونوں کو ان کا بدلہ مل سکے۔ یہ سچائی نظر آتی ہے کہ یہاں ہر چیز ایک مقررہ انجام تک پہنچتی ہے یہ حکمت مدبرہ کے مطابق ہے اور اس کائنات کا ہر واقعہ اپنے وقت پر ظہور پذیر ہوتا ہے۔ اس میں کوئی تقدیم پایا خیر نہیں ہوتی۔ اگر انسان یہ اندازہ نہیں لگا سکا کہ آخرت کب وقوع پذیر ہوگی تو اس کے معنی یہ نہیں کہ آخرت نہیں آئے گی۔ آخرت کا عدم علم یا اس کی تاخیر سے صرف وہ لوگ غلط نتائج اخذ کرتے ہیں جو معاملات کا صرف ظاہری پہلو دیکھ سکتے ہیں اس طرح ان کو دھوکہ لگ جاتا ہے اس وجہ سے
ان کثیر من الناس ۔۔۔۔ لکفرون (30: 8) ” بیشک بہت سے لوگ اپنے رب کی ملاقات کے منکر ہیں “۔
ضمیر کائنات اور زمین و آسمان کے درمیان پائے جانے والی مخلوقات کی سیر جو نہایت ہی وسیع سیر ہے جس کے آفاق بہت ہی طویل و عریض ہیں اور ناقابل تصور وسعتیں رکھتے ہیں اور ان آفاق کے اندر متنوع مخلوق ہے۔ جو زندہ اور غیر زندہ ، قسم قسم کی اشیاء پر مشتمل ہے جس میں اجرام سماوی ، افلاک ، نجوم و کواکب ، بڑے اور چھوٹے تارے اور سیارے ، ظاہر اور چھپے ہوئے ، قریب و بعید اور معلوم و نامعلوم ہیں۔ اس وسیع سیر کے بعد اب قرآن کریم ہمیں خود اپنی تاریخ کی سیر کی دعوت دیتا ہے کہ آغاز انسانیت کے بعد ذرا خود انسانی تاریخ کا بھی مطالعہ کرو ، خود اس تاریخ میں بھی یہ عظیم سچائی سنت جاریہ کی صورت میں اپنا کام کرتی ہے اور انسانی تاریخ کے واقعات بھی ایسے ہی اٹل اسباب کی وجہ سے ظاہر ہوتے ہیں جس طرح اس کائنات کے حوادث۔