You are reading a tafsir for the group of verses 30:1 to 30:7
الٓمّٓ
۟ۚ
غُلِبَتِ
الرُّوْمُ
۟ۙ
فِیْۤ
اَدْنَی
الْاَرْضِ
وَهُمْ
مِّنْ
بَعْدِ
غَلَبِهِمْ
سَیَغْلِبُوْنَ
۟ۙ
فِیْ
بِضْعِ
سِنِیْنَ ؕ۬
لِلّٰهِ
الْاَمْرُ
مِنْ
قَبْلُ
وَمِنْ
بَعْدُ ؕ
وَیَوْمَىِٕذٍ
یَّفْرَحُ
الْمُؤْمِنُوْنَ
۟ۙ
بِنَصْرِ
اللّٰهِ ؕ
یَنْصُرُ
مَنْ
یَّشَآءُ ؕ
وَهُوَ
الْعَزِیْزُ
الرَّحِیْمُ
۟ۙ
وَعْدَ
اللّٰهِ ؕ
لَا
یُخْلِفُ
اللّٰهُ
وَعْدَهٗ
وَلٰكِنَّ
اَكْثَرَ
النَّاسِ
لَا
یَعْلَمُوْنَ
۟
یَعْلَمُوْنَ
ظَاهِرًا
مِّنَ
الْحَیٰوةِ
الدُّنْیَا ۖۚ
وَهُمْ
عَنِ
الْاٰخِرَةِ
هُمْ
غٰفِلُوْنَ
۟
3

ظہور اسلام کے وقت دنیا میں دو بہت بڑی سلطنتیں تھیں۔ ایک، مسیحی رومی سلطنت۔ دوسرے مجوسی ایرانی سلطنت۔ دونوں میں ہمیشہ رقیبانہ کش مکش جاری رہتی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے بعد 603 ء کا واقعہ ہے کہ بعض کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر ایران نے رومی سلطنت پر حملہ کردیا۔ رومیوں کو شکست پر شکست ہوئی۔ یہاں تک کہ 616 ء تک یروشلم سمیت روم کی مشرقی سلطنت کا بڑا حصہ ایرانیوں کے قبضہ میں چلا گیا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت 610 ء میں ملی اور آپؐ نے مکہ میں دعوت توحید کا کام شروع کیا۔ اس لحاظ سے یہ عین وہی زمانہ تھا جب کہ مکہ میں توحید اور شرک کی کش مکش جاری تھی۔ مکہ کے مشرکین نے سرحدی واقعہ سے فال لیتے ہوئے مسلمانوں سے کہا کہ ہمارے مشرک بھائیوں (مجوس) نے تمھارے اہل کتاب بھائیوں (مسیحی) کو شکست دي ہے۔ اسی طرح ہم بھی تمھارا خاتمہ کردیں گے۔

اس وقت قرآن میں حالات كے سراسر خلاف یہ پیشین گوئی اتری کہ دس سال کے اندر رومی دوبارہ ایرانیوں پر غالب آجائیں گے۔ رومی مؤرخین بتاتے ہیں کہ اس کے جلد ہی بعد روم کے شکست خوردہ بادشاہ (ہرقل) میں پُراسرار طور پر تبدیلی پیدا ہونا شروع ہوئی۔ یہاں تک کہ 623 ء میں اس نے ایران پر جوابی حملہ کیا۔ 624 ء میں اس نے ایران پر فیصلہ کن فتح حاصل کی۔ 627 ء تک اس نے اپنے سارے مقبوضہ علاقے ایرانیوں سے واپس لے ليے۔ قرآن کی پیشین گوئی لفظ بلفظ پوری ہوئی اس سے ثابت ہوتاہے کہ قرآن کا مصنف خداہے۔ خدا کے سوا کوئی بھی مستقبل کے بارے میں اتنا صحیح بیان نہیں دے سکتا۔

مزیدیہ واقعہ بتاتا ہے کہ ہار اور جیت براہِ راست خدا کے اختیار میں ہے۔ اسی کے فیصلہ سے کسی کو اقتدار ملتاہے اور کسی سے اقتدار چھن جاتاہے۔ ایک قوم کا گرنا اور دوسری قوم کا اٹھنا بظاہر عام دنیوی واقعہ ہے۔ مگر اس ظاہر کا ایک باطن ہے۔ ہر واقعہ کے پیچھے خدا کے فرشتے فیصلہ کن طورپر کام کررہے ہوتے ہیں، اگر چہ وہ عام انسانی آنکھوں کو دکھائی نہیں دیتے — — اسی طرح موجودہ عالم ظاہر کا بھی ایک باطن ہے اور وہ عالم آخرت ہے۔