ویوم تقوم الساعۃ۔۔۔۔۔۔ فی العذاب محضرون (12 – 16)
یہ ہے وہ گھڑی جس سے لوگ غافل ہیں اور جھٹلانے والے جھٹلاتے ہیں۔ یہ دیکھو وہ آگئی اور ذرا دیکھو اس کا منظر ، یہ ہے برپا ہوگئی وہ۔ ذرا مجرمین کو دیکھو کس طرح حیران و پریشان ہیں۔ کس قدر مایوس ہیں ، ان کو نجات کی کوئی امید نہیں ہے اور نہ ان کو رہائی کی کوئی امید ہے۔ وہ شرکاء اور سفارشی جو انہوں نے دنیا کی زندگی میں بنا رکھے تھے اور جن سے وہ دھوکہ کھا کر گمراہ ہوگئے تھے ، ان کی جانب سے اب نہ اقتدار میں کوئی شرکت ہوگی اور نہ وہ سفارش کرسکیں گے ، بلکہ وہ تو ان لوگوں کی طرف سے شرک کرنے اور ان کی بندگی کرنے سے صاف صاف انکار کردیں گے کہ ہمیں تو معلوم ہی نہیں ہے کہ ان احمقوں نے ہمیں اللہ رب العالمین کے ساتھ شریک کیا ہے۔ چناچہ اہل ایمان اور اہل کفر کے درمیان یوں تفریق کردی جاتی ہے اور دونوں کے راستے جدا ہوجاتے ہیں۔
فاما الذین ۔۔۔۔۔ روضۃ یحبرون (30: 15) ” جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کئے وہ ایک باغ میں شاداں وفرحاں رکھے جائیں گے “۔ وہاں ان کو وہی صورت حال درپیش ہوگی جس سے وہ خوش ہوں گے۔ ان کے ضمیر میں فرحت پیدا ہوگی اور ان کے دل کو مسرت حاصل ہوگی۔
واما الذین کفروا ۔۔۔۔۔ فی العذاب محضرون (30: 16) ” اور جنہوں نے کفر کیا اور ہماری آیات کی تکذیب کی اور آخرت کی ملاقات کو جھٹلایا وہ عذاب میں حاضر رہیں گے “۔ یہ ہے آخری انجام نیکوکاروں اور بدکاروں کا۔
اب عالم آخرت کی سیر اور منظر سے ہم پھر واپس اس دنیا میں آجاتے ہیں۔ اس کائنات اور اس کے اندر زندگی اور اس کے اسرار و رموز اور عجائبات و کرامات کی سیر شروع ہوتی ہے۔ فی الواقعہ یہ کائنات ایک دلچسپ تفریح گاہ ہے۔ آغاز سفر صبح و شام اللہ کی حمد سے ہوتا ہے کہ صبح و شام کے مناظر کو ذرا دیکھو کس قدر دلفریب مناظر ہوتے ہیں۔
فسبحن اللہ حین ۔۔۔۔۔ وھو العزیز الحکیم (17 – 27)
” پس تسبیح کرو اللہ کی جب کہ تم شام کرتے ہو اور جب صبح کرتے ہو۔ آسمانوں اور زمین میں اسی کے لئے حمد ہے اور (تسبیح کرو اس کی) تیسرے سپہر اور جبکہ تم پر ظہر کا وقت آتا ہے۔ وہ زندہ کو مردے میں سے نکالتا ہے اور مردے کو زندہ میں سے نکال لاتا ہے اور زمین کو اس کی موت کے بعد زندگی بخشتا ہے۔ اسی طرح تم لوگ بھی (حالت موت سے) نکال لیے جاؤ گے۔
اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا پھر یکایک تم بشر ہو کہ (زمین میں) پھیلتے چلے جا رہے ہو۔
اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے بیویاں بنائیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان حجت اور رحمت پیدا کردی۔ یقیناً اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کیلئے جو غوروفکر کرتے ہیں۔ اور اس کی نشانیوں میں سے آسمان اور زمین کی پیدائش ، اور تمہاری زبانوں اور تمہارے رنگوں کا اختلاف ہے ، یقیناً اس میں بہت سی نشانیاں ہیں دانش مند لوگوں کیلئے۔ اور اس کی نشانیوں میں سے تمہارا رات اور دن کو سونا اور تمہارا اس کے فضل کو تلاش کرنا ہے۔ یقیناً اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو (غور سے) سنتے ہیں۔
اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ وہ تمہیں بجلی کی چمک دکھاتا ہے خوف کے ساتھ بھی اور طمع کے ساتھ بھی۔ اور آسمان سے پانی برساتا ہے ، پھر اس کے ذریعہ سے زمین کو اس کی اس کی موت کے بعد زندگی بخشتا ہے ، یقیناً اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں۔
اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ آسمان اور زمین اس کے حکم سے قائم ہیں۔ پھر جوں ہی کہ اس نے تمہیں زمین سے پکارا ، بس ایک ہی پکار میں اچانک تم نکل آؤ گے۔ آسمانوں اور زمین میں جو بھی ہیں ، اس کے بندے ہیں۔ سب کے سب اسی کے تابع فرمان ہیں۔ وہی اللہ ہے جو تخلیق کی ابتداء کرتا ہے۔ پھر وہی اس کا اعادہ کرے گا اور یہ اس کے لیے آسان تر ہے۔ آسمانوں اور زمین میں اس کی صفت سب سے برتر ہے اور وہ زبردست اور حکیم ہے “۔
یہ اس کائنات کا نہایت ہی گہرا اور عظیم مطالعاتی سفر ہے۔ اس کائنات کی دوریوں اور گہرائیوں تک۔ انسانی توائے مشاہدہ کو صبح و شام کے مناظر کی سیر کرائی جاتی ہے۔ زمین کے مناظر اور آسمانوں کے مناظر ، صبح و شام کے علاوہ پھر دوپہر کی دنیا۔ ان آفاق و مناظر میں حیات و ممات اور بہاروخزاں کی کا رستانیاں دکھائی جاتی ہیں ، ان خوشگوار فضاؤں میں انسان کو بتایا جاتا ہے کہ وہ ذرا اپنی تخلیق پر غور کرے ، اپنی فطرت کے رجحانات اور میلانات کا مشاہدہ کرے۔ اپنی جسمانی اور روحانی قوتوں اور ان کی کشاکش کو ذرا دیکھے۔ اس دنیا میں ہر چیز جوڑے جوڑے ہیں۔ ان جوڑوں کی باہمی محبت کو دیکھے ، اور زوجین کے رجحانات و میلانات اور ان کے قوائے فطرت کو ڈرا دیکھے اور اس کائنات کے زمین و آسمان ، باغ و راغ اور رنگ ڈھنگ اور پھر انسانوں کی شکلیں ، ان کے رنگ اور ان کی ہزار ہا زبانیں اور پھر انسان کی بیداری ، اس کی ہشیاری اور اس کی نیند اور اس کی جدوجہد اور اس کا آرام ، پھر اس طبیقی کائنات میں طوفان باد باران اور برق و بادل اور پھر لوگوں کا ان کو چاہنا اور ان سے ڈرنا ، اور پھر زمین کی مردنی اور روئیدگی اور پھر زندگی اور بہار اور پھر بحیثیت مجموعی اس کائنات کا قیام اور گردش اور نظام و انتظام ، یہ سب کام اللہ کے سوا اور کون کرسکتا ہے۔ یہ اللہ ہی تو ہے جس کی یہ تجلیات ہیں۔ اس کے لئے یہ سب کام بہت ہی آسان ہیں۔ وہی ہے جس نے ان اشیاء کو پیدا کیا ہے اور وہی ہے جو ان کو دوبارہ پیدا کرے گا اور دوبارہ پیدا کرنا اس کے لئے بہت ہی آسان ہے۔ آسمانوں اور زمین میں ذات باری کے اعلیٰ مشاہد موجود ہیں جو بےمثال ہیں۔