وَلَقَدْ
اَنْزَلْنَاۤ
اِلَیْكَ
اٰیٰتٍۭ
بَیِّنٰتٍ ۚ
وَمَا
یَكْفُرُ
بِهَاۤ
اِلَّا
الْفٰسِقُوْنَ
۟
3

یہاں اللہ تعالیٰ نے وہ اسباب کھول کر بیان کردئیے ہیں جن کی بناء پر بنی اسرائیل اللہ تعالیٰ کی ان واضح آیات کا انکار کررہے تھے جو خود اللہ کی جانب سے نازل ہوئی تھیں ۔ یعنی وہ لوگ فسق وفجور میں مبتلا تھے ۔ ان کی فطرت بگڑی ہوئی تھی کیونکہ فطرت سلیمہ کے لئے تو اس کے سوا کوئی چارہ کا رہی نہ تھا کہ وہ ان آیات پر ایمان لے آئے اگر دل میں کجی نہ ہو تو یہ آیات از خود اپنے آپ کو منواتی ہیں اور یہودیوں نے کفر کا جو رویہ اختیار کیا ہے تو اس کا سبب یہ نہیں ہے کہ قرآن کریم کی آیات میں دلائل کی کچھ کمی ہے یا وہ تشفی بخش نہیں بلکہ اصل سبب یہ ہے کہ خود ان کی فطرت بگڑ چکی ہے اور وہ فسق وفجور میں مبتلا ہوچکے ہیں۔

اس کے بعد روئے سخن مسلمانوں اور تمام دوسرے انسانوں کی طرف پھرجاتا ہے ۔ یہودیوں کی مذمت کی جاتی ہے اور ان کی صفات رذیلہ میں سے ایک دوسری صفت کو بیان کیا جاتا ہے کہ یہ لوگ آپس میں بھی مختلف خواہشات اپنے اندر رکھتے ہیں ۔ اپنے اس مذموم تعصب کے باوجود ان کے درمیان قدر مشترک ہے ۔ وہ کسی ایک رائے پر جمتے بھی نہیں نہ ہی وہ اپنے کئے ہوئے معاہدوں کی پابندی کرتے ہیں ۔ وہ کسی ایک رسی کو مضبوطی سے نہیں پکڑتے ۔ اگرچہ وہ اپنے ذاتی مفاد اور اپنے قومی مفاد کے سلسلے میں پرلے درجے کے خود غرض ہیں اور اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ ان کے سوا کسی اور کو بھی اللہ کا فضل وکرم نصیب ہو۔ لیکن اس قومی تعصب کے ہوتے ہوئے بھی وہ باہم متحد نہیں ہیں۔ وہ خود ایک دوسرے کے ساتھ کئے ہوئے معاہدوں کی پابندی بھی نہیں کرتے ۔ جب بھی وہ آپس میں کوئی پختہ عہد کرتے ہیں تو ان میں سے کوئی ایک گروہ اٹھ کر اسے توڑ دیتا ہے اور ان کے اس متفقہ فیصلے کی کھلی خلاف ورزی کرتا ہے ۔