قُلْ
مَنْ
كَانَ
عَدُوًّا
لِّجِبْرِیْلَ
فَاِنَّهٗ
نَزَّلَهٗ
عَلٰی
قَلْبِكَ
بِاِذْنِ
اللّٰهِ
مُصَدِّقًا
لِّمَا
بَیْنَ
یَدَیْهِ
وَهُدًی
وَّبُشْرٰی
لِلْمُؤْمِنِیْنَ
۟
3

اس چیلنج کے ذریعے ہمیں یہودیوں کی ایک عجیب و غریب نئی خاصیت معلوم ہوجاتی ہے ۔ یہودیوں نے محض اس لئے کہ ایک غیر یہودی پر وحی نازل ہوئی ۔ شدید بغض میں مبتلا ہوگئے ، بلکہ انہوں نے بغج وحسد کا ریکارڈ قائم کردیا ہے اور اس سلسلے میں وہ حماقت کی حد تک جاپہنچے ہیں ایسی متضاد باتیں کررہے ہیں جن کی توقع کسی عقلمند انسان سے نہیں کی جاسکتی ۔ جب انہیں معلوم ہوا کہ حضرت جبرئیل (علیہ السلام) وحی لے کر حضرت محمد ﷺ پر نازل ہوتے ہیں تو یہ لوگ حسد اور بغض کی وجہ سے جل بھن گئے اور ایک واہیات قصہ گھڑلیا کہ جبرئیل (علیہ السلام) تو ان کے پرانے دشمن ہیں ، کیونکہ وہ ہمیشہ اللہ کا عذاب ان پر لاتے رہے ہیں اور ان کے ہاتھوں بنی اسرائیل ہمیشہ تباہ وبرباد ہوتے رہے ہیں چونکہ محمد ﷺ کا تعلق حضرت جبرئیل (علیہ السلام) سے ہے ، اس لئے وہ اس پر ایمان نہیں لاتے ، اگر حضرت میکائیل وحی لاتے تو وہ ضرور ایمان لاتے کیونکہ حضرت میکائیل اللہ کے وہ فرشتے ہیں جو بارش ، تروتازگی اور انسانوں کے لئے خوشی کے سامان فراہم کرتے ہیں ۔ کیا واہیات دلیل ہے یہ ؟

ان کی اس احمقانہ بات پر انسان کو بےاختیار ہنسی آتی ہے لیکن جب انسان بغض وحسد کا شکا رہوتا ہے تو اس کی جانب سے اس سے بھی کہیں بڑی حماقتوں کا صدور ہونا کوئی امر بعید نہیں ہوتا۔ کیونکہ جبرئیل کوئی انسان نہ تھے کہ وہ کسی سے دشمنی کرسکیں یا وہ کسی کے ساتھ ازخود کوئی دوستی گانٹھ سکیں ۔ وہ اپنی مرضی سے کوئی کام کرنے کی سرے سے قدرت ہی نہ رکھتے تھے۔ حضرت جبرئیل فرشتہ ہونے کی وجہ سے ، اللہ کے احکامات کی سرتابی نہیں کرسکتے تھے وہ وہی کرتے تھے جس کا انہیں حکم دیا جاتا تھا۔

قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِجِبْرِيلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَى قَلْبِكَ بِإِذْنِ اللَّهِ ” کہو اگر کسی کو جبرئیل سے عداوت ہے تو اسے معلوم ہونا چاہئے کہ جبرئیل نے اللہ ہی کے اذن سے یہ قرآن تمہارے قلب پر نازل کیا ہے۔ “

جبرئیل (علیہ السلام) نہ ذاتی رجحان رکھتے تھے اور نہ انہوں نے آپ کے دل پر قرآن کریم اپنے ذاتی ارادے سے نازل کیا تھا۔ وہ تو صرف ارادہ الٰہی کو نافذ کرنے والے تھے اور آپ کے قلب پر نزول قرآن کا کام وہ اللہ کے احکامات کے تحت کررہے تھے ۔ قرآن کریم کا نزول دل پر ہورہا تھا ۔ دل ہی دراصل محل ادراک ہے اور وہی ہے جو ادراک کے بعد معانی کو سمجھتا ہے اور مدرکات کو محفوظ رکھتا ہے۔ قرآن کریم انسان کی قوت مدرکہ کی تعبیر ” قلب “ سے کرتا ہے لہٰذا قلب مدرک سے مراد خون اور گوشت کا معروف طبیعی لوتھڑا نہیں ہے بلکہ وہ ملکہ ہے جو فہم وادراک کا کام کرتا ہے ۔

جبرئیل نے آپ ﷺ کے قلب پر اس حال میں قرآن اتارا کہ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَهُدًى وَبُشْرَى لِلْمُؤْمِنِينَ ” جو پہلے آئی ہوئی کتابوں کی تصدیق وتائید کرتا ہے اور ایمان لانے والوں کے لئے ہدایت و کامیابی کی بشارت بن کر آیا ہے۔ “

قرآن کریم اصولی طور پر تمام سابقہ کتب کی تصدیق کرتا ہے کیونکہ تمام سماوی کتب اور تمام الٰہی ادیان کی اساسی تعلیمات ایک ہی تھیں اور وہ صرف مومنین کے لئے ہدایت اور پیغام مسرت ہے کیونکہ اس کی تعلیمات کے لئے صرف ایک مومن دل ہی کے دریچے کھلے ہوتے ہیں ۔ مومن ہی اس کی تعلیمات پت لبیک کہتے ہیں ۔ یہ ایک نہایت اہم حقیقت ہے جس کا کھول کر بیان کرنا نہایت ضروری ہے ۔ قرآن کریم کی آیات دل مومن کے اندر اس قدر انس پیدا کرتی ہیں ۔ اس کے اندر معرفت وادراک کی ایسی راہیں کھولتی ہیں اور اس کے اندر ایک ایسا شعور اور احساس پیدا کردیتی ہیں جن سے ہر وہ دل محروم رہتا ہے جس میں ایمان نہ ہو ۔ یہی وجہ ہے کہ قلب مومن کو قرآن کریم میں ہدایت ملتی ہے اور اس کے لئے اس پیغام میں مسرت ہوتا ہے ۔ قرآن کریم نے اس حقیقت کو مختلف مقامات کے اندر بیان کیا ہے ۔” ھُدًی لِلمُتَّقِینَ ، متقین کے لئے ہدایت ہے۔ “” ھُدًی لِّقَومٍ یُّؤمِنُونَ ، وہ اس قوم کے لئے ہدایت ہے جو ایمان لاتی ہے ۔ “” ھُدًی وَّرَحمَةٌ لِّقَومٍ یُّومِنُونَ ، وہ ایسے لوگوں کے لئے ہدایت ہے جو پختہ یقین رکھتے ہیں ۔ “ گویا ایمان تقویٰ اور یقین کے نتیجے کے طور پر ملتی ہے ۔ اور بنی اسرائیل اسی لئے اس سے محروم رہے کہ نہ وہ مومن تھے نہ متقی تھے اور نہ ذوق یقین سے آشنا تھے۔

گویا ہدایت ایمان تقویٰ اور یقین کے نتیجے کے طور پر ملتی ہے اور بنی اسرائیل اسی لئے محروم رہے کہ نہ وہ مومن تھے نہ متقی تھے اور نہ ذوق یقین سے آشنا تھے ۔

ان کی یہ عادت تھی کہ وہ اللہ کے بھیجے ہوئے رسولوں اور اس کے ادیان وشرائع کے درمیان فرق کرتے تھے ۔ اسی طرح وہ اللہ تعالیٰ کے فرشتوں کے درمیان بھی فرق کرتے تھے جن کے ناموں اور کاموں سے وہ واقف تھے ۔ کہتے تھے کہ میکائیل سے تو ان کے تعلقات بہت اچھے ہیں ۔ البتہ جبرئیل سے ان کے مراسم اچھے نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے جبرئیل میکائیل وغیرہ تمام فرشتوں اور رسولوں کو جمع کرلیا ۔ مقصد یہ ہے کہ وہ سب ایک ہی ہیں جو شخص ان میں سے ایک سے عداوت رکھتا ہے وہ سب سے عداوت رکھتا ہے ۔ بلکہ وہ اللہ تعالیٰ سے عداوت رکھتا ہے ۔ لہٰذا اللہ کو بھی ان سے عداوت ہوگی اور وہ کافر ہوجائیں گے ۔