You are reading a tafsir for the group of verses 2:94 to 2:95
قُلْ
اِنْ
كَانَتْ
لَكُمُ
الدَّارُ
الْاٰخِرَةُ
عِنْدَ
اللّٰهِ
خَالِصَةً
مِّنْ
دُوْنِ
النَّاسِ
فَتَمَنَّوُا
الْمَوْتَ
اِنْ
كُنْتُمْ
صٰدِقِیْنَ
۟
وَلَنْ
یَّتَمَنَّوْهُ
اَبَدًا
بِمَا
قَدَّمَتْ
اَیْدِیْهِمْ ؕ
وَاللّٰهُ
عَلِیْمٌۢ
بِالظّٰلِمِیْنَ
۟
3

اس کے بعد قرآن کریم خود ہی اعلان کردیتا ہے کہ یہ لوگ ہرگز دعوت مباہلہ قبول نہ کریں گے ۔ اور کبھی موت کی طلب نہ کریں گے ۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ وہ جھوٹے ہیں اور انہیں یہ ڈر تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ فریقین کی دعا قبول کرلیں تو وہ اس کی پکڑ میں آجائیں گے ۔ نیز وہ یہ بھی جانتے تھے کہ انہوں نے اس دنیا میں جو برے کام کئے ہیں ان کے نتیجے میں ، دارآخرت میں خود ان کا کوئی حصہ نہیں ہے ۔ اور اگر انہوں نے مباہلہ کیا ، تو نتیجہ یہ ہوگا کہ اپنے منہ مانگی موت کے نتیجے میں وہ دنیا سے بھی محروم ہوجائیں گے اور جو برے کام انہوں نے کئے ہیں اس کے نتیجے میں آخرت میں تو وہ محروم ہیں ہی ........ اس لئے قرآن کریم فیصلہ کن انداز میں کہتا ہے کہ ان سے یہ توقع ہرگز نہیں کی جاسکتی کہ وہ اس تحدی کو قبول کرلیں گے کیونکہ وہ حیات دنیوی کے لئے سب سے زیادہ حریص ہیں اور یہی حال تمام دوسرے مشرکین کا بھی ہے (بلکہ یہ اس معاملے میں ان سے بھی بڑھے ہوئے ہیں ) چناچہ فرماتے ہیں ؟