یہی نہیں بلکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ایک چٹان اور پہاڑ کے سائے میں تم سے ایک پختہ میثاق لیا تھا ، کیا تمہیں یاد نہیں کہ تم نے اس قسم کے غیر معمولی میثاق کو بھی توڑدیا تھا اور تم سرکشی اور معصیت میں مبتلا ہوگئے تھے ۔
وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّورَ خُذُوا مَا آتَيْنَاكُمْ بِقُوَّةٍ وَاسْمَعُوا قَالُوا سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا وَأُشْرِبُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْعِجْلَ بِكُفْرِهِمْ ” پھر ذرا اس میثاق کو یاد کرو جو طور کو تمہارے اوپر اٹھاکر ہم نے تم سے لیا تھا۔ ہم نے تاکید کی تھی کہ جو ہدایات ہم دے رہے ہیں ، ان کی سختی کے ساتھ پابندی کرو اور کان لگا کر سنو ۔ تمہارے اسلاف نے کہا کہ ہم نے سن لیا ، مگر مانیں گے نہیں ۔ اور ان کی باطل پرستی کا یہ حال تھا کہ دلوں میں ان کے بچھڑا ہی بسا ہوا تھا۔ “
یہاں آکر خطابی انداز گفتگو ، حکامت وبیان میں تبدیل ہوجاتا ہے ۔ کیونکہ پہلے تو بنی اسرائیل کو مخاطب کرکے انہیں یاد دلایا جاتا ہے کہ تم یہ یہ کرتے رہے ، اس کے بعد کلام کا رخ مومنین اور عام انسانوں کی طرف پھرجاتا ہے اور انہیں بتایا جاتا ہے کہ دیکھو یہ بنی اسرائیل یہ یہ کام کرتے رہے ، اور نبی ﷺ کو سمجھادیا جاتا ہے کہ آپ اچانک انہیں آڑے ہاتھوں لیں ۔ اور ان سے پوچھیں کہ ان کا ایمان کس قدر گھٹیا اور مکروہ ایمان ہے جو بقول ان کے انہیں ایسا صریح کافرانہ اور ناپسندیدہ رویہ اختیار کرنے کے لئے مجبور کررہا ہے ۔
قُلْ بِئْسَمَا يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمَانُكُمْ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ ” کہو اگر تم مومن ہو ، تو عجیب ایمان ہے جو ایسی بری حرکات کا تمہیں حکم دیتا ہے ۔ “
قرآن کریم کی یہ دو مصورانہ تعبیریں کس قدر گہری سوچ بچار کی مستحق ہیں ۔ یہ کہ ” انہوں نے کہا ” ہم نے سن لیا مگر مانیں گے نہیں۔ “ اور یہ کہ ؟” اور ان کی باطل پرستی کا یہ حال تھا کہ دلوں کو بچھڑا پلادیا گیا تھا۔ “
انہوں نے کہا ” ہم نے سن لیا۔ “ اور بعد میں کہا ، ہم مانیں گے نہیں ۔ لیکن پہلے ہی سے یہ نہیں کہا ؟” ہم مانیں گے نہیں۔ “ سوال یہ ہے کہ یہ دونوں باتیں وہ ایک ہی سانس میں کس طرح کہہ گئے ؟ درحقیقت یہ ایک خاموش موقف اور حقیقت واقعہ کی حکایتی تعبیر ہے ۔ انہوں نے اپنے منہ سے کہا ” ہم نے سن لیا ۔ “ لیکن اپنے عمل سے انہوں نے ثابت کردیا کہ وہ ” مانیں گے نہیں ۔ “ کیونکہ عمل ہی دراصل زبانی تکلم کو معنی پہناتا ہے ۔ اور عملی اظہار قولی اظہار سے زیادہ قوی ہوتا ہے ۔ واقعاتی صورت حال کی اس تعبیر سے دراصل اسلام کے اس ہمہ گیر اصول کا اظہار ہوتا ہے کہ عمل کے بغیر محض باتوں اور زبانی جمع خرچ کی اسلام میں کوئی اہمیت نہیں ہے ۔ اسلام میں اصل اعتبار عمل ہی کا ہے ۔ واقعاتی حرکات اور الفاظ کی تعبیروں کے درمیان عمل ہی اصل رابطہ ہے اور فیصلے عمل پر ہی کئے جاتے ہیں ۔
دوسری تعبیر کہ ” ان کے دلوں کو بچھڑا پلادیا گیا۔ “ بڑی ہی سخت اور اپنی نوعیت کی منفرد تعبیر ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ ” وہ پلائے گئے ہیں “ یعنی کسی نے انہیں کچھ پلادیا ہے۔ کیا پلادیا ہے ؟ انہیں بچھڑا پلایا گیا ہے ۔ کہاں ؟ ن کے دلوں میں ، کس قدر سخت تعبیر ہے یہ ؟ انسانی تخیل یہ کوشش کررہا ہے کہ دلوں میں ایک بچھڑے کو داخل ہوتے ہوئے دیکھے یا تصور کرے ۔ یعنی گویا مجسم بچھڑا دلوں میں داخل ہورہا ہے اور یہ بچھڑا ان کے دلوں کی دنیا میں چھایا ہوا ہے ۔ تعبیر معانی کے لئے ایسی حسی تجویز کی گئی ہے کہ ایک لمحہ کے لئے انسان کے پردہ خیال سے اصل مفہوم و مدعا ، یعنی ان کے دلوں میں بچھڑے کی محبت و عبادت ، اوجھل ہوجاتا ہے ۔ اور انسان یہ سوچتا ہے کہ گویا فی الواقعہ بچھڑا انہیں گھول کر پلادیا گیا ہے۔
ایسے مقامات پر ادبیاتی نقطہ نظر سے غوروفکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کے مصورانہ طرز ادا کی کیا قدر و قیمت ہے ؟ نظریاتی اور ذہنی تعبیروں کے مقابلے میں قرآن کریم کی حسی تعبیر کس قدر واضح اور مفصل ہے ۔ الفاظ میں اصل صورت واقعہ کا نقشہ کھینچ کر رکھ دیا جاتا ہے ۔
قرآن کریم کی حسی طرز تعبیر اور اس کی خصوصیات میں سے یہ ایک اہم تعبیر ہے ۔
یہودیوں کا یہ بڑا دعویٰ تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ مخلوق ہیں ، وہی راہ ہدایت پر ہیں اور وہی ہیں جنہیں عالم آخرت میں یقیناً فلاح نصیب ہوگی ۔ اور آخرت میں ان کے سوا ، دوسری اقوام کو کچھ نہ ملے گا ، یہودیوں کے اس دعوے کا صاف صاف اشارہ اس طرف تھا کہ آخرت میں نبی آخرالزمان حضرت محمد ﷺ کی امت بھی نجات سے محروم ہوگی ۔ اس پروپیگنڈے سے یہودیوں کا مقصد یہ تھا کہ عام مسلمانوں کے دلوں میں قرآن کریم کی تعلیمات حضرت محمد ﷺ کے ارشادات اور دین اسلام کے بارے میں بےاعتمادی کی فضا پیدا کردی جائے ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺ کو حکم دیا کہ انہیں مباہلے کی دعوت دیں ، دونوں فریق کھڑے ہوجائیں اور ان میں سے جو بھی جھوٹا ہے اس کی ہلاکت کے لئے دعا کریں ؟