وَاِذْ
اَخَذْنَا
مِیْثَاقَكُمْ
وَرَفَعْنَا
فَوْقَكُمُ
الطُّوْرَ ؕ
خُذُوْا
مَاۤ
اٰتَیْنٰكُمْ
بِقُوَّةٍ
وَّاسْمَعُوْا ؕ
قَالُوْا
سَمِعْنَا
وَعَصَیْنَا ۗ
وَاُشْرِبُوْا
فِیْ
قُلُوْبِهِمُ
الْعِجْلَ
بِكُفْرِهِمْ ؕ
قُلْ
بِئْسَمَا
یَاْمُرُكُمْ
بِهٖۤ
اِیْمَانُكُمْ
اِنْ
كُنْتُمْ
مُّؤْمِنِیْنَ
۟
3

آیت 93 وَاِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَکُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَکُمُ الطُّوْرَ ط خُذُوْا مَآ اٰتَیْنٰکُمْ بِقُوَّۃٍ وَّاسْمَعُوْا ط ہم نے تاکید کی تھی کہ جو ہدایات ہم دے رہے ہیں ان کی سختی کے ساتھ پابندی کرو اور کان لگا کرسنو۔قَالُوْا سَمِعْنَا وَعَصَیْنَاق۔ یعنی ہم نے سن تو لیا ہے ‘ مگر مانیں گے نہیں ! قوم یہود کی یہ بھی ایک دیرینہ بیماری تھی کہ زبان کو ذرا سا مروڑ کر الفاظ کو اس طرح بدل دیتے تھے کہ بات کا مفہوم ہی یکسر بدل جائے۔ چناچہ سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا کے بجائے سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا کہتے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ جو منافقین تھے ان کا بھی یہی وطیرہ تھا۔ ان کی جب سرزنش کی جاتی تو کہتے تھے کہ ہم نے تو کہا تھا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا آپ کی اپنی سماعت میں کوئی خلل ہوگا۔وَاُشْرِبُوْا فِیْ قُلُوْبِہِمُ الْعِجْلَ بِکُفْرِہِمْ ط قُلْ بِءْسَمَا یَاْمُرُکُمْ بِہٖٓ اِیْمَانُکُمْ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ! یہ عجیب ایمان ہے جو تمہیں ایسی بری حرکات کا حکم دیتا ہے۔ کیا ایمان کے ساتھ ایسی حرکتیں ممکن ہوتی ہیں ؟آگے پھر ایک بہت اہم آفاقی سچائی universal truth کا بیان ہو رہا ہے ‘ جس کو پڑھتے ہوئے خود ‘ دروں بینی introspection کی ضرورت ہے۔ یہود کو یہ زعم تھا کہ ہم تو اللہ کے بڑے چہیتے ہیں ‘ لاڈلے ہیں ‘ اس کے بیٹوں کی مانند ہیں ‘ ہم اولیاء اللہ ہیں ‘ ہم اس کے پسندیدہ اور چنیدہ لوگ ہیں ‘ لہٰذا آخرت کا گھر ہمارے ہی لیے ہے۔ چناچہ ان کے سامنے ایک لٹمس ٹیسٹ litmus test رکھا جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ یہ ٹیسٹ میرے اور آپ کے لیے بھی ہے۔