You are reading a tafsir for the group of verses 2:91 to 2:96
وَاِذَا
قِیْلَ
لَهُمْ
اٰمِنُوْا
بِمَاۤ
اَنْزَلَ
اللّٰهُ
قَالُوْا
نُؤْمِنُ
بِمَاۤ
اُنْزِلَ
عَلَیْنَا
وَیَكْفُرُوْنَ
بِمَا
وَرَآءَهٗ ۗ
وَهُوَ
الْحَقُّ
مُصَدِّقًا
لِّمَا
مَعَهُمْ ؕ
قُلْ
فَلِمَ
تَقْتُلُوْنَ
اَنْۢبِیَآءَ
اللّٰهِ
مِنْ
قَبْلُ
اِنْ
كُنْتُمْ
مُّؤْمِنِیْنَ
۟
وَلَقَدْ
جَآءَكُمْ
مُّوْسٰی
بِالْبَیِّنٰتِ
ثُمَّ
اتَّخَذْتُمُ
الْعِجْلَ
مِنْ
بَعْدِهٖ
وَاَنْتُمْ
ظٰلِمُوْنَ
۟
وَاِذْ
اَخَذْنَا
مِیْثَاقَكُمْ
وَرَفَعْنَا
فَوْقَكُمُ
الطُّوْرَ ؕ
خُذُوْا
مَاۤ
اٰتَیْنٰكُمْ
بِقُوَّةٍ
وَّاسْمَعُوْا ؕ
قَالُوْا
سَمِعْنَا
وَعَصَیْنَا ۗ
وَاُشْرِبُوْا
فِیْ
قُلُوْبِهِمُ
الْعِجْلَ
بِكُفْرِهِمْ ؕ
قُلْ
بِئْسَمَا
یَاْمُرُكُمْ
بِهٖۤ
اِیْمَانُكُمْ
اِنْ
كُنْتُمْ
مُّؤْمِنِیْنَ
۟
قُلْ
اِنْ
كَانَتْ
لَكُمُ
الدَّارُ
الْاٰخِرَةُ
عِنْدَ
اللّٰهِ
خَالِصَةً
مِّنْ
دُوْنِ
النَّاسِ
فَتَمَنَّوُا
الْمَوْتَ
اِنْ
كُنْتُمْ
صٰدِقِیْنَ
۟
وَلَنْ
یَّتَمَنَّوْهُ
اَبَدًا
بِمَا
قَدَّمَتْ
اَیْدِیْهِمْ ؕ
وَاللّٰهُ
عَلِیْمٌۢ
بِالظّٰلِمِیْنَ
۟
وَلَتَجِدَنَّهُمْ
اَحْرَصَ
النَّاسِ
عَلٰی
حَیٰوةٍ ۛۚ
وَمِنَ
الَّذِیْنَ
اَشْرَكُوْا ۛۚ
یَوَدُّ
اَحَدُهُمْ
لَوْ
یُعَمَّرُ
اَلْفَ
سَنَةٍ ۚ
وَمَا
هُوَ
بِمُزَحْزِحِهٖ
مِنَ
الْعَذَابِ
اَنْ
یُّعَمَّرَ ؕ
وَاللّٰهُ
بَصِیْرٌ
بِمَا
یَعْمَلُوْنَ
۟۠
3

عرب کے اہل کتاب جو قرآن کی دعوت کو ماننے کے لیے تیار نہ ہوئے، اس کی وجہ ان کا یہ احساس تھا کہ وہ پہلے سے حق پر ہیں اور حق پرستوں کی سب سے بڑی جماعت بني اسرائیل) سے وابستگی رکھتے ہیں ۔ مگر یہ دراصل گروہ پرستی تھی جس کو انھوں نے حق پرستی کے ہم معنی سمجھ رکھا تھا۔ وہ گروہی حق کو خالص حق کا مقام ديے ہوئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ حق جب اپنی بے آمیز صورت میں ظاہر ہوا تو وہ اس کو لینے کے لیے آگے نہ بڑھ سکے۔ اگر خالص حق ان کا مقصود ہوتا تو ان کے لیے یہ جاننا مشکل نہ ہوتا کہ قرآن کا آنا خود ان کی مقدس کتاب تورات کی پیشین گوئیوں کے مطابق ہے، اور یہ کہ قرآن کے نزول کے بعد اب قرآن ہی کتابِ حق ہے، نہ کہ ان کا اپنا گر وہی مذہب۔

ان کا معاملہ فی الواقع حق پرستی کا معاملہ نہیں۔ اس کا ثبوت ان کی اپنی تاریخ میں یہ ہے کہ انھوں نے خود اپنے گروہ کے نبیوں (مثلاً حضرت زکریاؑ، حضرت یحيیٰؑ) کو قتل کیا جنھوں نے ان کی زندگیوں پر تنقید کی، جو ’’ان کے خلاف گواہی دیتے تھے تاکہ ان کو خدا کی طرف پھرالائیں (نحمیاہ 9: 26 )۔حضرت موسیٰ ؑنے جو معجزات پیش کيے اس کے بعدان کی نبوت میں کوئی شبہ نہیں رہ گیا تھا۔ مگر کوہ طور کے چالیس روزہ قیام کے زمانہ میں جب حضرت موسیٰ ؑکا شخصی دباؤ ان کے سامنے نہ رہا تو انھوں نے بچھڑے کو معبود بنا لیا۔ ان کے سر پر پہاڑ کھڑا کردیا گیا تب بھی صرف وقتی طورپر جان بچانے کے لیے انھوں نے کہہ دیا کہ ہاں ہم نے سنا۔ مگر اس کے بعد ان کی اکثریت بدستور نافرمانی کی زندگی پر قائم رہی۔ اگر وہ سچ مچ خدا پرست ہوتے توان کی ساری توجہ خدا کی اس دنیا کی طرف لگ جاتی جو موت کے بعد آنے والی ہے۔ مگر ان کا حال یہ ہے کہ وہ سب سے زیادہ موجودہ دنیا کی محبت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔