ان کی جانب سے یہ کافرانہ رویہ اختیار کرنا اس لئے زیادہ قبیح تھا کہ وہ اس کا انکار کررہے تھے ۔ جس کے انتظار میں وہ صدیوں تک بیٹھے ہوئے تھے اور وہ یہ امید لگائے ہوئے تھے کہ اس کے ذریعے وہ تمام کفار پر غلبہ پالیں گے ۔ ان کا عقیدہ تھا کہ اس آنے والے نبی کے ذریعے وہ فتح اور نصرت حاصل کریں گے ۔ اور جب وہ اس کتاب کی تصدیق کرتے ہوئے تشریف لائے ، جو ان کے پاس تھی تو انہوں نے کفر کی راہ لی ۔
وَلَمَّا جَاءَهُمْ كِتَابٌ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَهُمْ وَكَانُوا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا فَلَمَّا جَاءَهُمْ مَا عَرَفُوا كَفَرُوا بِهِ
” اور اب جو ایک کتاب اللہ کی طرف سے ان کے پاس آئی ہے ۔ اس کے ساتھ ان کا کیا برتاؤ ہے ؟ باوجودیکہ وہ اس کتاب کی تصدیق کرتی ہے ۔ جو ان کے پاس پہلے سے موجود تھی ۔ باوجودیکہ اس کی آمد سے پہلے وہ کفار کے مقابلے میں فتح ونصرت کی دعائیں مانگا کرتے تھے ۔ مگر جب وہ چیز آگئی ، جسے وہ پہچان بھی گئے تو انہوں نے اسے ماننے سے انکار کردیا۔ “
یہ ان کی ایسی قبیح حرکت تھی کہ وہ اس پر بجاطور پر اس سزا کے مستحق تھے کہ انہیں راہ ہدایت سے دور پھینک دیا جائے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان پر اللہ کی پھٹکار برستی ہے۔ اور انہیں کفر کے عیب سے متصف قرا ردیا جاتا ہے فَلَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَافِرِينَ ” اللہ کی لعنت ان منکروں پر ۔ “ اس کے بعد اللہ تعالیٰ یہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے جو سودا کیا وہ گھاٹے کا سودا ہے ۔ نیز اللہ تعالیٰ ان کے اس مکروہ موقف اور ناپسندیدہ طرز عمل کا اصل اور پوشیدہ سبب بھی ظاہر فرمادیتے ہیں ۔