یہاں آکر قرآن کریم کا انداز بیان عنیف وشدید ہوجاتا ہے اور بعض مقامات پر تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا بجلی گررہی ہے یا آگ برس رہی ہے ۔ قرآن کریم ، کود ان کے اقوال اور ان کے تاریخی افعال میں ان کے سامنے رکھ کر ، انہیں اس طرح آڑے ہاتھوں لیتا ہے کہ بیچارے بالکل لاجواب ہوجاتے ہیں ۔ ان کے پاس کوئی حجت نہیں رہتی ۔ نہ ہی وہ کوئی معذرت پیش کرسکتے ہیں ۔ درحقیقت تو وہ ازروئے استکبار سچائی قبول کرنے سے اعراض کرتے تھے ۔ ان کے دلوں میں اسلام کے خلاف بغض بھرا ہوا تھا ، وہ مسلمانوں کو حقیر سمجھ کر ان سے دوری اختیار کئے ہوئے تھے ، انہیں یہ بات بےحد پسند تھی کہ ان کے علاوہ کوئی بھی یہ مقام بلند پائے اور ان کے دلوں کو یہ حسد کھائے جارہا تھا کہ اللہ کا یہ فضل وکرم مسلمانوں پر کیوں ہورہا ہے ؟ لیکن لوگوں کو دکھانے کی خاطر اسلام قبول کرنے کی مذکورہ بالاوجوہات بیان کرتے تھے ۔ جنہیں اللہ تعالیٰ نے سختی سے ردّ کردیا کیونکہ اللہ اور رسول کے مقابلے میں ان کے منکرانہ اور متمرادانہ موقف کا یہی علاج تھا۔
وَقَالُوا قُلُوبُنَا غُلْفٌ بَلْ لَعَنَهُمُ اللَّهُ بِكُفْرِهِمْ فَقَلِيلا مَا يُؤْمِنُونَ ” اور وہ کہتے ہیں کہ ” ہمارے دل محفوظ ہیں۔ “ اصل بات یہ ہے کہ ان کے کفر کی وجہ سے ان پر اللہ کی پھٹکار پڑی ہے ۔ اس لئے وہ کم ہی ایمان لاتے ہیں۔ “
وہ کہتے تھے کہ ہمارے دلوں کے اوپر غلاف چڑھے ہوئے ہیں ۔ ان تک کوئی جدید دعوت نہیں پہنچ سکتی ۔ نہ ہی کسی نئے داعی کی پکار سننے کے لئے تیار ہیں ۔ یہ بات وہ اس لئے کہتے تھے کہ نبی ﷺ اور مسلمانوں کو مایوس کردیں تاکہ وہ انہیں اس دین جدید کی طرف بلانا ہی چھوڑ دیں ، نیز وہ یہ باتیں نبی ﷺ کی دعوت قبول نہ کرنے کی علت کے طور پر کہتے تھے ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ ان کی ان باتوں کو رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ بَلْ لَعَنَهُمُ اللَّهُ بِكُفْرِهِمْ ” بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ان کے کفر کی وجہ سے ان اللہ کی پھٹکار پڑی ہے۔ “ یعنی ان کے مسلسل انکار کی وجہ سے اللہ نے انہیں بطور سزا ہدایت سے بہرہور ہونے سے محروم کردیا اور اس روشنی کے درمیان پردے حائل ہوگئے ۔ فَقَلِيلا مَا يُؤْمِنُونَ ” اس لئے وہ کم ہی ایمان لاتے ہیں ۔ “
یعنی چونکہ اپنے مسلسل کفر اور قدیم گمراہی کی وجہ سے وہ راہ حق سے دور جاپڑے ہیں ۔ اور اللہ نے بطور سزا انہیں محروم بھی کردیا ہے ۔ اس لئے وہ ہم ہی ایمان لاتے ہیں ۔ نیز اس آیت کا مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے ۔” چونکہ وہ کافرانہ روش اختیار کئے ہوئے ہیں ، اس لئے وہ کم ہی ایمان لاتے ہیں۔ “ یعنی یہ ان کی مستقل روش ہے جس پر وہ قائم ہیں ۔ دونوں مفہوم سیاق کلام سے مناسبت رکھتے ہیں ۔