قدیم مدینہ کے اطراف میں تین غیر عرب قبیلے آباد تھے— بنو نضیر، بنو قریظہ اور بنو قینقاع۔یہ سب موسوی شریعت کو مانتے تھے۔ مگر ان کی زوال یافتہ ذہنیت نے ان کو الگ الگ گروہوں میں بانٹ رکھا تھا۔ اپنی دنیوی سیاست کے تحت وہ مدینہ کے مشرک قبائل ، اوس اور خزرج کے ساتھ مل گئے تھے۔ بنو نضیر اور بنو قریظہ نے قبیلہ اوس کا ساتھ پکڑ لیا تھا۔ بنو قینقاع قبیلہ خزرج کے حلیف بنے ہوئے تھے۔ اس طرح دو گروہ بن کر وہ آپس میں لڑتے رہتے تھے۔جنگ بعاث اسی قسم کی ایک جنگ تھی جو ہجرت نبوی سے پانچ سال پہلے واقع ہوئی۔ ان لڑائیوں میں یہ اہل کتاب مشرک قبائل کے ساتھ مل کر دو دو گروپس میں تقسیم ہوجاتے۔ ایک گروپ میں شامل ہونے والے اہل کتاب مشرکین کے ساتھ مل کر دوسرے گروپ میں شامل ہونے والے اہل کتاب کو قتل کرتے اور ان کو ان کے گھروں سے بے گھر کرتے۔ پھر جب جنگ ختم ہوجاتی تو وہ تورات، یعنی خدائی کتاب کا حوالہ دے کر اپنے ہم مذہبوں سے چندہ کی اپیلیں کرتے تاکہ اپنے گرفتار بھائیوں کو فدیہ دے کر مشرک قبائل کے ہاتھ سے چھڑایاجاسکے۔ انسان کے جان ومال کے احترام کے بارے میں وہ خدا کے حکم کو توڑتے اور پھر اپنی ظالمانہ سیاست کا شکار ہونے والوں کے ساتھ نمائشی ہمدردی کرکے ظاہر کرتے کہ وہ بہت دیندار ہیں ۔
یہ ایسا ہی هےجیسے ایک شخص کو ناحق قتل کردیا جائے اور اس کے بعد شرعی طریقہ پر اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے — شریعت کے اصلی اور اساسی احکام آدمی سے جاہلی زندگی چھوڑنے کے لیے کہتے ہیں۔ وہ اس کی خواہش نفس سے ٹکراتے ہیں۔ وہ اس کی دنیا دارانہ سیاست پر روک لگاتے ہیں، اس ليے آدمی ان احکام کو نظر انداز کرتاہے۔ وہ حقیقی دین داری کے جوئے میں اپنے کو ڈالنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ البتہ کچھ معمولی اور نمائشی چیزوں کی دھوم مچا کر یہ ظاہر کرتاہے کہ وہ خدا کے دین پر پوری طرح قائم ہے۔ مگر یہ خدا کے دین کا خود ساختہ ایڈیشن تیار کرنا ہے۔ یہ دین کے اخروی پہلو کو نظر انداز کرنا ہے اور دین کے بعض وہ پہلو جو اپنے اندر دنیوی رونق اور شہرت رکھتے ہیں ان میں دین داری کا کمال دکھانا ہے۔ دین میں اس قسم کی جسارت آدمی کو اللہ کے غضب کا مستحق بناتی ہے، نہ کہ اللہ کے انعام کا۔