وَاِذْ
اَخَذْنَا
مِیْثَاقَكُمْ
لَا
تَسْفِكُوْنَ
دِمَآءَكُمْ
وَلَا
تُخْرِجُوْنَ
اَنْفُسَكُمْ
مِّنْ
دِیَارِكُمْ
ثُمَّ
اَقْرَرْتُمْ
وَاَنْتُمْ
تَشْهَدُوْنَ
۟
3

اب اس سے آگے بھی کلام بنی اسرائیل کی طرف ہی ہے ۔ قرآن کریم ان کو مخاطب کرکے بتاتا ہے کہ ان کے موقف میں کیا کیا تضادات پائے جاتے ہیں ۔ اور کہاں کہاں وہ اللہ کے ساتھ کئے ہوئے عہد کی خلاف ورزی کررہے ہیں۔

وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِمَاءَكُمْ وَلا تُخْرِجُونَ أَنْفُسَكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ ثُمَّ أَقْرَرْتُمْ وَأَنْتُمْ تَشْهَدُونَ (84)

” پھر یاد کرو ! ہم نے تم سے مضبوط عہد لیا تھا کہ آپس میں ایک دوسرے کا خون نہ بہانا اور نہ ایک دوسرے کو بےگھر کرنا ۔ تم نے اس کا اقرار کیا تھا اور تم اس پر گواہ ہو ۔ “ پھر اس اقرار اور شہادت اور گواہی کے بعد کیا ہوا ؟