انسان کے اوپر اللہ کا پہلا حق یہ ہے کہ وہ اللہ کا عبادت گزار بنے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے۔ دوسرا حق بندوں کے ساتھ حسن سلوک ہے۔ اس حسن سلوک کا آغاز اپنے ماں باپ سے ہوتا ہے اور پھر رشتہ داروں اور پڑوسیوں سے گزر کر ان تمام انسانوں تک پہنچ جاتا ہے جن سے عملی زندگی میںسابقہ پیش آئے۔ ایک انسان اور دوسرے انسان کے درمیان جب بھی کوئی معاملہ پڑے تو وہاں ایک ہی برتاؤ اپنے بھائی کے ساتھ درست ہے۔ اور وہ وہی ہے جو انصاف اور خیر خواہی کے مطابق ہو۔
اس معاملہ میں آدمی کا اصل امتحان ’’یتیموں اور مسکینوں‘‘ بالفاظ دیگر، کمزور افراد کے ساتھ ہوتا ہے۔ کیوں کہ جو طاقت ور ہے اس کا طاقت ور ہونا خود اس بات کی ضمانت ہے کہ لوگ اس کے ساتھ حسن سلوک کریں۔ مگر کمزور آدمی کے ساتھ حسن سلوک کے لیے اس قسم کا کوئی اضافی محرک نہیں۔ اس لیے سب سے زیادہ حسن سلوک جہاں مطلوب ہے وہ کمزور لوگ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جہاں ہر چیز کی نفی ہوجاتی ہے وہاں خداہوتا ہے۔ ایسے آدمی کے ساتھ وہی شخص حسن سلوک کرے گا جو فی الواقع اللہ کی خوشنودی کے لیے ایسا کررہا ہو۔ کیوں کہ وہاں کوئی دوسرا محرک موجود ہی نہیں۔
جب معاملہ کمزور آدمی سے ہوتو مختلف وجوہ سے حسن سلوک کا شعور دَب جاتا ہے۔ کمزور آدمی کو مدد دی جاتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پانے والے کے مقابلہ میں دینے والا اپنے کو اونچا سمجھنے لگتا ہے۔ یہ نفسیات کمزورآدمی کی عزت نفس کو ملحوظ رکھنے میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔ کمزور کی طرف سے متوقع نیاز مندی کا اظہار نہ ہو تو فوراً اس کو نااہل سمجھ لیا جاتا ہے اور اس کا اظہار مختلف تکلیف دہ صورتوں میں ہوتا رہتا ہے، ایک دو بار مدد کرنے کے بعد یہ خیال ہوتا ہے کہ یہ شخص مستقل طورپر میرے سر نہ ہوجائے، اس لیے اس سے چھٹی لینے کی خاطر اس کے ساتھ غیر شریفانہ اندازاختیار کیا جاتا ہے، وغیرہ۔
بھلی بات بولنا تمام اعمال کا خلاصہ ہے۔ ایک حقیقی خیر خواہی کا کلمہ کہنا آدمی کے لیے ہمیشہ سب سے زیادہ دشوار ہوتا ہے۔ آدمی اچھی اچھی تقریریں کرتا ہے۔ مگر جب ایک اچھی بات کسی دوسرے کے اعتراف کے ہم معنی ہو تو آدمی ایسی اچھی بات منھ سے نکالنے کے لیے سب سے زیادہ بخیل ہوتا ہے۔ سامنے کا آدمی اگر بے زور ہے تو اس کے لیے شرافت کے الفاظ بولنا بھی وہ ضروری نہیں سمجھتا۔ اگر کسی سے شکایت یا برہمی پیدا ہوجائے تو آدمی سمجھ لیتا ہے کہ وہ انصاف کے ہر خدائی حکم سے اس کو مستثنیٰ کرنے میں حق بجانب ہے۔