آرزوؤں (امانی) سے مراد وہ جھوٹے قصے کہانیاں ہیں جوخدائی کتاب کی حامل زوال یافتہ قوموں نے اپنے دین کے بارے میں گھڑ رکھی تھیں اور جو اپنی ظاہرفریبی کی وجہ سے عوام میں خوب پھیل گئی تھیں (أَكَاذِيبَ مُخْتَلِفَةً سَمِعُوهَا مِنْ عُلَمَائِهِمْ فَنَقَلُوهَا عَلَى التَّقْلِيدِ، قَالَهُ ابْنُ عَبَّاسٍ وَمُجَاهِدٌ، وَاخْتَارَهُ الْفَرَّاءُ ) البحر المحیط، جلد1، صفحہ
سستی نجات کے یہ مقدس نسخے عوام کے لیے بہت کشش رکھتے تھے۔ کیوں کہ اس میں ان کو اپنی اس خوش خیالی کی تصدیق مل رہی تھی کہ ان کو اپنی غیر ذمہ دارانہ زندگی پر روک لگانے کی ضرورت نہیں ۔ وہ کسی جدوجہد کے بغیر محض ٹونے ٹوٹکے کی برکت سے جنت میں پہنچ جائیں گے۔ چنانچہ جو دینی واعظین قدیم بزرگوں کے حوالے سے یہ خوش کن کہانیاں سناتے تھے ان کو لوگوں کے درمیان زبردست مقبولیت حاصل ہوئی۔ آخرت کے معاملے کو آسان بنانا ان کے لیے شان دار دنیوی تجارت کا ذریعہ بن گیا۔ ان کے گرد عوام کی بھیڑ جمع ہوگئی۔ ان کے اوپر نذرانوں کی بارش ہونے لگی۔ وہ لوگوں کو مفت جنت حاصل کرنے کا راستہ بتاتے تھے، لوگوں نے اس کے بدلے ان کے لیے اپنی طرف سے مفت دنیا فراہم کردی۔
یہی ہر دور میں حامل کتاب قوموں کا مرض رہا ہے۔ جولوگ اس قسم کے لذیذ خوابوں میں جی رہے ہوں، جو یہ سمجھ بیٹھے ہوں کہ چند رسمی اعمال کے سوا ان پر کسی ذمہ داری کا بوجھ نہیں ہے۔ جو اس خوش گمانی میں مبتلا ہوںکہ ان کے سارے حقوق خدا کے یہاں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوچکے ہیں، ایسے لوگ سچے دین کی دعوت کو کبھی گوارا نہیں کرتے۔ کیوں کہ ایسی باتیں ان کو اپنی میٹھی نیند کو خراب کرتی ہوئی نظر آتی ہیں، وہ ان کو زندگی کی برہنہ حقیقتوں کے سامنے کھڑا کر دیتی ہیں۔