وَالَّذِیْنَ
اٰمَنُوْا
وَعَمِلُوا
الصّٰلِحٰتِ
اُولٰٓىِٕكَ
اَصْحٰبُ
الْجَنَّةِ ۚ
هُمْ
فِیْهَا
خٰلِدُوْنَ
۟۠
3

اس فیصلے اور نتیجے کے بعد دوسرا اور مقابل صورت کا حکم بھی یہاں بیان کیا جاتا ہے ۔

وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ” اور جو لوگ ایمان لائیں گے اور نیک عمل کریں گے وہی جنتی ہیں اور جنت میں ہمیشہ رہیں گے ۔ اور نیک عمل کریں گے۔ “

یعنی ایمان کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ وہ دل سے عمل صالح کی شکل میں پھوٹ کر باہر نکل آئے ۔ جو لوگ ایمان کے دعوے دار ہیں ، انہیں چاہئے کہ اس حقیقت پر ذرا غور کرلیں نیز وہ تمام مسلمان بھی جو اپنے آپ کو مسلمان کہلاتے ہیں ، اور ہم بھی ان میں شامل ہیں ، اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہم اس حقیقت کے بارے میں اچھی طرح تسلی کرلیں ۔ ایمان کا وجود اس وقت تک متصور نہ ہوگا جب تک اس کے نتیجے میں عمل صالح پیدا نہ ہو ، رہے وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں ، پھر زمین میں فساد پھیلاتے ہیں اور نیکی اور بھلائی کا مقابلہ کرتے ہیں ۔ زمین پر اسلامی نظام حیات کے قیام اور اسلامی شریعت کے نفاذ کو روکتے ہیں اور اس کا انکار کرتے ہیں ۔ اسلامی اخلاق کے خلاف برسر پیکار رہتے ہیں ۔ تو ایسے لوگوں کے لئے دولت ایمان کا ایک ذرہ بھی نہیں ہے ، ان کے لئے اللہ کے ہاں کوئی اجر نہیں ہے ۔ انہیں اللہ کے عذاب سے بچانے والا کوئی نہیں ہے ۔ اگرچہ وہ ایسی خوش آئند امیدیں اور آرزوئیں اپنے دلوں کے اندر رکھتے ہیں جیسی یہود رکھتے تھے ، اور جن کا اوپر اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا۔ پس سب کے لئے یہی حکم ہے۔

اس کے بعد بنی اسرائیل کے کچھ اور حالات مسلمانوں کے سامنے رکھے جاتے ہیں ، مختلف اوقات میں ان کے طرز عمل ، معصیت ، کجروی ، گمراہی اور عہد و پیمان کی خلاف ورزی کے مختلف واقعات بیان کئے جاتے ہیں اور یہودیوں کے یہ سیاہ کارنامے مسلمانوں کے سامنے ، ان پر کھولے جاتے ہیں ۔