You are reading a tafsir for the group of verses 2:8 to 2:10
وَمِنَ
النَّاسِ
مَنْ
یَّقُوْلُ
اٰمَنَّا
بِاللّٰهِ
وَبِالْیَوْمِ
الْاٰخِرِ
وَمَا
هُمْ
بِمُؤْمِنِیْنَ
۟ۘ
یُخٰدِعُوْنَ
اللّٰهَ
وَالَّذِیْنَ
اٰمَنُوْا ۚ
وَمَا
یَخْدَعُوْنَ
اِلَّاۤ
اَنْفُسَهُمْ
وَمَا
یَشْعُرُوْنَ
۟ؕ
فِیْ
قُلُوْبِهِمْ
مَّرَضٌ ۙ
فَزَادَهُمُ
اللّٰهُ
مَرَضًا ۚ
وَلَهُمْ
عَذَابٌ
اَلِیْمٌ ۙ۬۟ 
بِمَا
كَانُوْا
یَكْذِبُوْنَ
۟
3

عرب کے لوگوں نے شرک کو سچائی سمجھ کر اختیار کر رکھا تھا۔پیغمبر کی دعوتِ توحید سے شرک کو ماننے والوں کے عقائد متزلزل ہوئے تو اس میں ان لوگوں کو خطرہ محسوس ہونے لگا جو شرک کی زمین پر اپنی سرداری قائم کيے ہوئے تھے۔ ایک عام آدمی کے ليے شرک کو چھوڑنا صرف اپنے آبائی دین کو چھوڑنا ہوتا ہے۔ جب کہ ایک سردار کے ليے شرک کا خاتمہ اس کی سرداری کے خاتمہ کے ہم معنی ہے۔ اس ليے ہر دور میں بے آمیز دین کی دعوت کے سب سے زیادہ مخالف وہ لوگ بن جاتے ہیں جو ملاوٹی دین کی بنیاد پر اپنی قیادت قائم کيے ہوئے ہوں۔

یہ لوگ حق کی دعوت اور اس کے داعی کے بارے میں لایعنی بحثیں پیدا کرتے ہیں۔ وہ کوشش کرتے ہیں کہ ان کے زیر اثر عوام دعوت کے بارے میں مشتبہ ہوجائیں۔ اور بدستور اپنے رواجی دین پر قائم رہیں۔

حق کی یہ مخالفت وہ صرف اس ليے کرتے ہیں کہ خود ساختہ دین کی بنیاد پر انھوں نے جو اپنی جھوٹی بڑائی قائم کررکھی ہے، وہ بدستور قائم رہے۔ ان کو سچائی سے زیادہ اپنی ذات سے دلچسپی ہوتی ہے۔ ایسے لوگ خدا کے نزدیک بہت بڑے مجرم ہیں۔ قیامت میں ا ن کے حصہ میں رسوائی اور عذاب کے سوا کچھ آنے والا نہیں۔