آیت 78 وَمِنْہُمْ اُمِّیُّوْنَ “ rّ ”اُمی“ کا لفظ قرآن مجید میں اصلاً تو مشرکین عرب کے لیے آتا ہے۔ اس لیے کہ ان کے اندر پڑھنے لکھنے کا رواج ہی نہیں تھا۔ کوئی آسمانی کتاب بھی ان کے پاس نہیں تھی۔ لیکن یہاں یہود کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ ان میں سے بھی ایک طبقہ ان پڑھ لوگوں پر مشتمل ہے۔ جیسے آج مسلمانوں کا حال ہے کہ اکثر و بیشتر جاہل ہیں ‘ ان میں سے بعض اگرچہ پی ایچ ڈی ہوں گے ‘ لیکن انہیں قرآن کی ”ا ‘ ب ‘ ت“ نہیں آتی ‘ دین کے ”مبادی“ تک سے ناواقف ہیں۔ چناچہ آج پڑھے لکھے مسلمانوں کی بھی عظیم اکثریت ”پڑھے لکھے جاہلوں“ پر مشتمل ہے۔ جبکہ ہماری اکثریت ویسے ہی بغیر پڑھی لکھی ہے۔ تو اب انہیں دین کا کیا پتا ؟ وہ تو سارا اعتماد کریں گے علماء پر ! کوئی بریلوی ہے تو بریلوی علماء پر اعتماد کرے گا ‘ کوئی دیوبندی ہے تو دیوبندی علماء پر اعتماد کرے گا ‘ کوئی اہل حدیث ہے تو اہل حدیث علماء پر اعتماد کرے گا۔ اب امیوں کا سہارا کیا ہوتا ہے ؟ّلاَ یَعْلَمُوْنَ الْکِتٰبَ الاَّ اَمَانِیَّ “ ایسے لوگ کتاب سے تو واقف نہیں ہوتے ‘ بس اپنی کچھ خواہشات اور آرزوؤں پر تکیہ کیے ہوئے ہوتے ہیں۔ ان خواہشات کا ذکر آگے آجائے گا۔ یہود کو یہ زعم تھا کہ ہم تو اسرائیلی ہیں ‘ ہم اللہ کے محبوب ہیں اور اس کے بیٹوں کی مانند چہیتے ہیں ‘ ہماری تو شفاعت ہو ہی جائے گی۔ ہمیں تو جہنم میں داخل کیا بھی گیا تو تھوڑے سے عرصے کے لیے کیا جائے گا ‘ پھر ہمیں نکال لیا جائے گا۔ یہ ان کی ”اَمَانِیّ“ ہیں۔ ”اُمْنِیَّۃٌ“ کہتے ہیں بےبنیاد خواہش کو ‘ اَمَانِیّاس کی جمع ہے۔ اس کی صحیح تعبیر کے لیے انگریزی کا لفظ wishful thinkings ہے۔ یہ اپنی ان بےبنیاد خواہشات اور جھوٹی آرزوؤں کے سہارے جی رہے ہیں ‘ کتاب کا علم ان کے پاس ہے ہی نہیں۔وَاِنْ ہُمْ الاَّ یَظُنُّوْنَ “ ان کے پاس محض وہم و گمان اور ان کے اپنے من گھڑت خیالات ہیں۔